کیونکہ یہ خبر میرے علاقے کی ہے
اور کردار بھی اپنے آپنے سے لگتے هیں ـ
انسانی نفسیات ہے کہ اس کو اپنے نزدیک کی خبر کسی بھی اورسیاسی بین القوامی یا کسی بھی طرح کی خبر سے زیادھ ایٹریکٹ کرتی ہے
چک نظام ہمارے گاؤں سے صرف دو هی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے
اس گاؤں میں پرائمری تک تو سکول ہے اس کے بعد اس گاؤں کے طالب علموں کو ہمارے گاؤں والے هائی سکول میں آنا پڑتا ہے ـ
یورپ جانے کی کوشش میں مجروح هو جانے والے اس لڑکے کی عمر ابھی صرف بیس سال ہے
اور اگلے مہینےیعنی ستمبر دو هزار آٹھ کی سترھ کو مجھے اپنے گاؤں سے نکلے بیس سال هو جائیں گے
اس لیے اس کو جاننے کا دعوا تومیں نہیں کروں گا
لیکن اس گاؤں کےلوگوں کا ہمارے گاؤں میں اتنا انا جانا ہے که جب تک میں پاکستان میں تھا
اس گاؤں چک نظام کے سارے هی کاروباری لوگ مجھے جانتے تھے ـ
دل رنجیدھ هونے کا سبب یه هے که کسی بھی مجبور پر گذرنے والی ظلم کی واردات مجھے اپنے پر گزری لگتی ہے ـ
اپنی کم مائیگی اور مجبوری کا احساس هوتا ہے که ہم پاکستانیوں کو آپنی غریبی سے نپٹنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے هیں ـ
میں آپنے هی ملک میں آپنے هی لوگوں میں آپنی هی زمین پر بھی رہنے کے قابل نهیں هوں کیا ؟؟
کسی اور کا کیا جواب هو گا نامعلوم مگر میں کہوں کا
هاں
پاکستان میں اس طرح کے حالات پیدا کر دیے گئے هیں که میں خود سے هی اس ملک سے فرار هونے کی کوششوں میں لگا هوا هوں ـ
انگریزی میں مس فٹ کہتے هیں اور اردو میں فضول اور
پنجابی میں کہیں کے
گھونسلے سے گرا هوا بچہ ـ
اور اگر میں معاشرے کو الزام دوں کو کہوں گا که ہم
پاکستانی معاشرے کے دھتکارے هوئے لوگ هیں ـ
اگر نہیں تو میں اس معاشرے کے بھاگنے کے لیے اتنا تردد کیوں کرتاهوں؟؟ ـ
غربت کے خوف سے !ـ
جی هاں غربت کے خوف سے
لیکن قبرستان کے نزدیک سے گزرنے والے خوف زدھ بچے کی طرح جس کا پیشاب خطا هونے کے قریب هو مگر اپنے دل کی تسلی کے لیے للکارے مارے که
مجھے ڈر نہیں لگ رها ـ
آپنی غریبی کے خوف سے میں لوگ جب باهر جانے کی کوشش کرتے هیں تو کتنی منتیں مانتے هیں
تعویز کرواتے هیں
پیروں فقیروں کے پاس جاتے هیں
ایجنٹوں کے ” ترلے ” اور منتیں کرتے هیں ـ
اگر پیدل یورپ کی سرحدیں هوں تو قدم قدم پر رب کو یاد کرتے هیں اور دعا یه هوتی هے که
پھر اس جہنم میں واپس نه چلے جائیں جس سے نکل کر آئے هیں ـ
ترکی اور یونان کی سرحدوں پر ہماری لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نهیں هوتا ـ
کنٹینروں میں دم گھٹ کر مرنے والے کسی کھاتے میں هی نہیں جاتے ـ
یه سب لوگ اپنی اپنی ماؤں کے
خاور هوتے هیں ـ
ایک احساس کا نام ہے که یه ساری گولیاں جو ترکی کی سرحد پر لگتی هیں مجھے لگتی هیں
اور مشرقی یورپ کے سرد صحراؤں میں بھی میں هی مرتا هوں ـ
اور اگر جاپان جیسے کسی ملک میں جهاں که ائیرپورٹ کے راستے آتے هیں داخلے کی کوشش میں
هم کیا کیا جتن کرتا هوں ؟؟
ڈی پورٹ هونے کے خوف سے مراجاتا هوں ـ
اور اگر یورپ یا جاپان میں انٹر هو بھی جاؤں تو پھر میری زندگی خوف زدھ چوهے که طرح هوتی هے ـ
کونے کھدورں میں چھپ چھپ کر کان کھڑے کرکے چوهے که انکھوں کی پتلیوں هی کی طرح میری انکھوں کی پتلیاں بھی چاروں طرف گھوم رهی هوتی هیں ـ
که کہیں پولیس والے نه دیکھ لیں ـ
پولیس جو که ان غیر پاکستانی معاشروں میں ایک دوست اور مددگار هوتی هے مجھ پاک لوگوں کو یه دشمن نظر اتی ہے ـ
کیونکه مجھے آپنی غریبی کا خوف هوتا ہے ـ
پھر ہم کیا کیا پاپڑ بیل کر ان ملکوں میں رهنے کے اجازت نامے لیتا هوں ـ
کہیں بیمار بن کر اور کہیں اور کهیں سیاسی مظلوم بن کر
ہر جگه میں بھکاری کی طرح بھیک مانکتے نظر اتا هوں ـ
جاپان میں جہاں مجھے ویزے کے لیے شادی کرنی پڑتی ہے
میں ایسی ایسی عورتوں سے شادی رچا لیتا هوں که جو میری ماں کی عمر کی بھی هو سکتی هے یاپھر ذہنی مریض جسمانی معذور بھی هو سکتي ہے اور ریٹائیر جسم فروش
کچھ بچوں کی ماں هو یا خصموں والی
کوئی بات نہیں جی
ویزھ ملنا چاهیے
که پاکستان والی غریبی سے جان بچ جائے ـ
ساری قباهتوں کے بعد جب مجھے ویزھ مل جاتا ہے تو پھر میرے اطوار دیکھنے والے هوتے هیں ـ
مجھے ڈر نہیں لگ رهاہے
کو میں اس طرح بیان کرنے لگتا هوں که جی میں تو خاندانی امیر تھا
اپنی زمینیں تھیں مکان تھے
اور گر کوئی مجھے سے پوچھ لے که تم کو کسی محکمے نے اس ملک یورپ یا جاپان میں انے کا دعوت نامه بھیجا تھا تو میں بجائے شرمندھ هونے کے اس بندے کے خلاف هو جاتا هوں ـ
کینکه یه بندھ میرے اندر کے خوف کی پہچان رکھتا ہے اور ایسے بندے تو مجھے اچھے هی نہیں لگتے ـ
کہیں کوئی چوها شراب کے ڈرم میں گر گیا
جیسے تیسے باهر نکلا
تو نشه هو چکا تھااکڑ کرکھڑا هو گیا
اور لگا للکارے مارنے
کهاں هیں بلیاں
نکالوباهر اج میں ان سب کو کچا هی کھا جاؤں گا
جب مجھے ویزھ مل جائے تو میرا بھی یہی حال هوتا ہے
اور جاپان جیسا ملک هو جہان پیسا بھی بہت ہے اور جاپانی لوگ بھی منسکرالمزاج تو مجھے مسخریاں سوجھنےلگتی هیں ـ
ان ساری باتوں کا مطلب یه نهیں که خاور کو اپنی اوقات بھول گئی هوتی هے
اوقات کی یاد هی تو یه سارے ڈرامے کرواتی ہے که
میں اپنی اوقات بھولنا چاهتا هوں
میرا مفلس ماضی جان نهیں چھوڑتا
اور خوف اتا ہے که وه ماضی پھر ناں آجائے ـ
یاروں میں کی کراں ؟؟
میں وه گدها هوں جو نه گھر کا ناں گھاٹ کا
میں وه کوا هو جو هنس کی چال چلنے میں اپنی بھی بھول چکا هوں ـ
یارو کوئی بتائے که میں کیا کروں که مجھے یورپ کی سرحدوں پر ناں مرنا پڑے
مجھے ویزوں کے لیے اپنی اناء کا خون نه کرنا پڑے ؟؟
مجھے اپنی جائیداد کی تفصیل بتا بتا کر
اپنے رشته داروں کے سیاسی قد بتا بتا کر
اپنی غریبی کے خوف کو ناں چھپانا پڑے ؟؟
2 comments for “غریبی کا خوف ! تحریر خاور کھوکھر(کنگ)٠”