بہت سال پہلے کی بات ہے، باسی والا گاؤں کے پاس ایک ڈیرے کے سامنے والی زمین پر ایک درخت کے نیچے ، دنیا و مافیہا سے بےنیاز ، قدرتی لباس میں ایک بھاری بھرکم بابا جی بیٹھا کرتے تھے. ہم چھوٹے چھوٹے سے لڑکے انھیں بابا جی مکھن کے نام سے جانتے تھے، جو ہم نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا. بابا جی مکھن بڑے جلالی یعنی غصے والے بزرگ تھے. میں ، میرا بڑا بھائی اور ہمارے کچھ دوست روزانہ باسی والا جایا کرتے تھے. ہم دراصل وہاں صرف بابا جی کو ستانے نہیں جاتے تھے ، بلکہ بھینس کا چارہ لینے جایا کرتے تھے. بابا جی کو ستانا ہمارا پاس ٹائم تھا . بابا جی کی گالیاں اتنی کراری ہوا کرتی تھیں کے میں آپ کو کیا بتاؤں ، وہ انگلش کی تین فارموں کے جیسی گالیاں نکالتے تھے . ٹن – ٹنا – ٹنس یہ مجہے اب بھی یاد ہیں . یہ لگانے سے پہلے وہ حسب منشا ماں یا بہن لگاتے تھے. ہمیں ان کو تنگ کرنے کی جرات صرف اس لئے تھی کہ بابا جی اپنی جگہ نہیں چھوڑتے تھے ہم سارے لڑکے بابا جی سے تھوڑا فاصلہ رکھ کر بابا جی کی ٹانگوں کے نیچے نشانے لگا کر دیکھا کرتے تھے کہ کس کا نشانہ درست جگہ پر لگا ہے. اس کے بعد بابا جی کے منہ سے کراری گالی نکلتی تو ہمیں اپنے نشانے پر ناز ہوتا . میں اکثر وہاں پر آے ہووے 1 جوڑے کو بھی دیکھا کرتا جو موٹر سائیکل کھیت کے پاس کھڑی کرتے عورت کھیت کے ایک طرف بیٹھ جاتی جب کے اسکا مرد من کی مراد پانے کے لئے جس کے ایک ہاتھ میں تمباکو ، مٹھائی ہوتے وہ آدمی دوسرا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالتا اور اس میں سے کچھ نقدی نکلتا اور بابا جی سے کوئی دس فٹ کے فاصلے پر رکھ آتا . پھر یہ جوڑا کچھ دیر بیٹھ کر بابا جی کا سراپا دیکھتا رہتا اور پھر چلا جاتا .ہم بڑے شریف شرارتی تھے لوگوں کے سامنے بابا جی کو بلکل نہ تنگ کرتے بلکہ دوزانوں بیٹھ جاتے، جب لوگ چلے جاتے پھر وہی نشانہ پکانے کا عمل کرتے رہتے ، یہاں تک کہ شام ہونے کو آجاتی .پھر ہم گھروں کو لوٹتے . ایک دن کا قصہ کچھ یوں ہے، کہ ہم نے بابا جی کی ناک میں دم کیا ہوا تھا، ٹن، ٹنا ،ٹن کی آوازیں فضا میں گونج رہیں تھیں، کہ ہم نے سڑک کی طرف سے آتے ہوے ایک سادہ دیہاتی بزرگ کو دیکھا ، ہم نے شرارتوں کا عمل روک دیا ، وہ بزرگ بڑا ہی پیر پرست تھا ، وہ ہم سے بابا جی کے متعلق پوچھنے لگا، میرے بھائی نے کہا، کہ یہ بڑے کرنی والے پیر ہیں، جس نے انکا فیض حاصل کرنا ہوتا ہے، وہ ان سے جا کر سر پر پیار لیتا ہے، بس یہ کہنے کی دیر تھی ، کہ وہ آدمی بابا جی مکھن کی جانب بڑھنے لگا ، اور ہم چونکہ ایک سنگین جھوٹ بول چکے تھے ،جس کا نتیجہ تھوڑی دیر میں نکلنے والا تھا، ہم آھستہ آھستہ وہاں سے کھسک کر ایک فاصلے تک آگئے جہاں سے ہم کھیتوں سے دوڑتے کافی دور نکل سکتے تھے.وہ شخص بابا جی کے پاس پنہچ چکا تھا، اس نے اپنی گردن بابا جی کے سامنے جھکا دی، اور اونچی آواز میں بابا جی سے فیض مانگنے لگا، بس پھر کیا تھا، بابا جی تو پہلے ہی آگ بگولہ تھے، بابا جی نے اس آدمی کے گریبان کو اپنے مضبوط ہاتھ سے پکڑ لیا ، اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اینٹ سے اس آدمی کے سر پر فیض کا فوارہ کھول دیا ، دو تین دفعہ تو اس آدمی نے کہا بابا جی فیض کرو … فیض کرو …. لیکن جب اس نے دیکھا کہ بابا جی چھوڑنے والے نہیں ، تو اس نے بابا جی سے بھی بڑی گالی نکلتے ہوے اپنی پوری طاقت سے ان سے اپنی جان چھڑای. اب وہ بھاگ کر ہمیں گالیاں دیتا ہوا ہماری طرف دوڑا، تو میرے بھائی نے پھر دوڑتے ہوے ایک اور نفسیاتی حربہ استمعال کیا ،اور اس آدمی سے کہا کہ یہ جتنا بھی آپکا خون نکلا ہے ، اسی کھیت کے پانی سے اس کو دھویں، آپکو بہت فیض حاصل ہوگا . قارئین تیس سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، آج بھی وہ شرارت یاد آتی ہے، تو کبھی ہنسی اور کبھی خوف آنے لگتا ہے. بابا جی مکھن سرکار بڑے سال پہلے انتقال فرما گۓ تھے ، انکی قبر بھی اسی جگہہ پر بنائی گئی ، کئی دفعہ میں نے سوچا کہ انکی قبر پر ہی جاکر معافی مانگ لوں ،مگر جانے کیوں انکی قبر کے پاس جانے سے بھی مجھے ڈر لگتا ہے
بابا جی مکھن سرکار- تحریر علاامہ افتخار
بہت سال پہلے کی بات ہے، باسی والا گاؤں کے پاس ایک ڈیرے کے سامنے والی زمین پر ایک درخت کے نیچے ، دنیا و مافیہا سے بےنیاز ، قدرتی لباس میں ایک بھاری بھرکم بابا جی بیٹھا کرتے تھے. ہم چھوٹے چھوٹے سے لڑکے انھیں بابا جی مکھن کے نام سے جانتے تھے، جو ہم نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا. بابا جی مکھن بڑے جلالی یعنی غصے والے بزرگ تھے. میں ، میرا بڑا بھائی اور ہمارے کچھ دوست روزانہ باسی والا جایا کرتے تھے. ہم دراصل وہاں صرف بابا جی کو ستانے نہیں جاتے تھے ، بلکہ بھینس کا چارہ لینے جایا کرتے تھے. بابا جی کو ستانا ہمارا پاس ٹائم تھا . بابا جی کی گالیاں اتنی کراری ہوا کرتی تھیں کے میں آپ کو کیا بتاؤں ، وہ انگلش کی تین فارموں کے جیسی گالیاں نکالتے تھے . ٹن – ٹنا – ٹنس یہ مجہے اب بھی یاد ہیں . یہ لگانے سے پہلے وہ حسب منشا ماں یا بہن لگاتے تھے. ہمیں ان کو تنگ کرنے کی جرات صرف اس لئے تھی کہ بابا جی اپنی جگہ نہیں چھوڑتے تھے ہم سارے لڑکے بابا جی سے تھوڑا فاصلہ رکھ کر بابا جی کی ٹانگوں کے نیچے نشانے لگا کر دیکھا کرتے تھے کہ کس کا نشانہ درست جگہ پر لگا ہے. اس کے بعد بابا جی کے منہ سے کراری گالی نکلتی تو ہمیں اپنے نشانے پر ناز ہوتا . میں اکثر وہاں پر آے ہووے 1 جوڑے کو بھی دیکھا کرتا جو موٹر سائیکل کھیت کے پاس کھڑی کرتے عورت کھیت کے ایک طرف بیٹھ جاتی جب کے اسکا مرد من کی مراد پانے کے لئے جس کے ایک ہاتھ میں تمباکو ، مٹھائی ہوتے وہ آدمی دوسرا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالتا اور اس میں سے کچھ نقدی نکلتا اور بابا جی سے کوئی دس فٹ کے فاصلے پر رکھ آتا . پھر یہ جوڑا کچھ دیر بیٹھ کر بابا جی کا سراپا دیکھتا رہتا اور پھر چلا جاتا .ہم بڑے شریف شرارتی تھے لوگوں کے سامنے بابا جی کو بلکل نہ تنگ کرتے بلکہ دوزانوں بیٹھ جاتے، جب لوگ چلے جاتے پھر وہی نشانہ پکانے کا عمل کرتے رہتے ، یہاں تک کہ شام ہونے کو آجاتی .پھر ہم گھروں کو لوٹتے . ایک دن کا قصہ کچھ یوں ہے، کہ ہم نے بابا جی کی ناک میں دم کیا ہوا تھا، ٹن، ٹنا ،ٹن کی آوازیں فضا میں گونج رہیں تھیں، کہ ہم نے سڑک کی طرف سے آتے ہوے ایک سادہ دیہاتی بزرگ کو دیکھا ، ہم نے شرارتوں کا عمل روک دیا ، وہ بزرگ بڑا ہی پیر پرست تھا ، وہ ہم سے بابا جی کے متعلق پوچھنے لگا، میرے بھائی نے کہا، کہ یہ بڑے کرنی والے پیر ہیں، جس نے انکا فیض حاصل کرنا ہوتا ہے، وہ ان سے جا کر سر پر پیار لیتا ہے، بس یہ کہنے کی دیر تھی ، کہ وہ آدمی بابا جی مکھن کی جانب بڑھنے لگا ، اور ہم چونکہ ایک سنگین جھوٹ بول چکے تھے ،جس کا نتیجہ تھوڑی دیر میں نکلنے والا تھا، ہم آھستہ آھستہ وہاں سے کھسک کر ایک فاصلے تک آگئے جہاں سے ہم کھیتوں سے دوڑتے کافی دور نکل سکتے تھے.وہ شخص بابا جی کے پاس پنہچ چکا تھا، اس نے اپنی گردن بابا جی کے سامنے جھکا دی، اور اونچی آواز میں بابا جی سے فیض مانگنے لگا، بس پھر کیا تھا، بابا جی تو پہلے ہی آگ بگولہ تھے، بابا جی نے اس آدمی کے گریبان کو اپنے مضبوط ہاتھ سے پکڑ لیا ، اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اینٹ سے اس آدمی کے سر پر فیض کا فوارہ کھول دیا ، دو تین دفعہ تو اس آدمی نے کہا بابا جی فیض کرو … فیض کرو …. لیکن جب اس نے دیکھا کہ بابا جی چھوڑنے والے نہیں ، تو اس نے بابا جی سے بھی بڑی گالی نکلتے ہوے اپنی پوری طاقت سے ان سے اپنی جان چھڑای. اب وہ بھاگ کر ہمیں گالیاں دیتا ہوا ہماری طرف دوڑا، تو میرے بھائی نے پھر دوڑتے ہوے ایک اور نفسیاتی حربہ استمعال کیا ،اور اس آدمی سے کہا کہ یہ جتنا بھی آپکا خون نکلا ہے ، اسی کھیت کے پانی سے اس کو دھویں، آپکو بہت فیض حاصل ہوگا . قارئین تیس سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، آج بھی وہ شرارت یاد آتی ہے، تو کبھی ہنسی اور کبھی خوف آنے لگتا ہے. بابا جی مکھن سرکار بڑے سال پہلے انتقال فرما گۓ تھے ، انکی قبر بھی اسی جگہہ پر بنائی گئی ، کئی دفعہ میں نے سوچا کہ انکی قبر پر ہی جاکر معافی مانگ لوں ،مگر جانے کیوں انکی قبر کے پاس جانے سے بھی مجھے ڈر لگتا ہے
1 comment for “بابا جی مکھن سرکار- تحریر علاامہ افتخار”