چھوٹے ہوتے اکثر گلی کے لڑکے مجھے پھینٹی لگا دیا کرتے تھے. ایک تو ہمیں والد صاحب سے بہت ڈر لگتا تھا،کیونکہ انکا کہنا یہ تھا کہ میں آپکو کبھی بھی گلی میں کھیلتا ہوا نہ دیکھوں ورنہ چمڑی ادھیڑ دوں گا، دوسرا یہ کہ آپکی باہر سے کوئی شکایت نہ ملے ، ورنہ چمڑی ادھیڑ دونگا.اب اگر گلی میں نہ کھیلوں تو دن کیسے گزرے، اس لئے بنٹے کھیلنا میرا شوق اور مار کھانا معمول بن گیا تھا، مجھے بالو نائی ، اور جیدی آرائیں زیادہ مارا کرتے تھے، ایک دن جیدی نے مجھے کہا، یار ہم تمھیں روزانہ مارتے ہیں، چارے کراتے ہیں تم ہمیں نہیں مارتے اسکی وجھ کیا ہے؟ اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی، ایک حکمت کی بات ،میں نے انھیں کہا کہ بھائی ایک پیر صاحب ہیں انہوں نے منع کیا ہے، کہ کچھ بھی ہوجائے تم نے کسی دوسرے آدمی پر ہاتھ نہیں اٹھانا. اور پھر جو آپ کو تنگ کریگا، اسکو میں خواب میں ایسی اذیت دونگا، کہ وہ زندگی بھر کسی کو تنگ نہیں کریگا . بس یہ کہنے کی دیر تھی ، کہ ان دونوں نے مجھے آئندہ پھینٹی نہ لگانے کی قسم کھائی ، اور پھر دیگر محلے دار لڑکوں کو بھی یہ بتایا کہ اسے غلطی سے بھی نہ مارنا …. اور پھر میرے مزے ہوگئے ،کیونکہ اب میں انکی نگاہ میں ایک معتبر حیثیت اختیار کر چکا تھا