چینی . یوٹیلٹی اسٹور کے باہرلگی لمبی سی قطار دیکھ کر میرے قدم رک گئے. دو ماچومین اسٹور سے باہر کھرے تھے جو کے آگے بڑھنے والو کو سخت سست سنا رہے تھے. میں نے بےہمتی سی قطار میں کھڑے نظر آنے والے لوگوں میں سے سب سے زیادہ کمزور اور بےہمت شخص سے سوال کیا بھی یہاں ایسی کون سی مفت کی کھیر بانٹی جا رہی ہے؟اس نے میری طرف سے غصے سے دیکھتے ہوے کہا کے آیندہ ایسی بات کبھی نہ کرنا مہنگائی کے
اس المناک زمانے میں مفت کی بات کرتے ہو جو جا کر اپنے دماغ کا علاج کراؤ کس زمانے کے آدمی ہو تم . ایسا لگتا ہے پاگل ہو تم مفت کے تو آج کل دھکے بھی نہیں ملتے.اس پر بھی انرجی صرف ہوتی ہے .میں شرمندہ سا ہو گیا سر جوھکا کر واپس مڑنے لگا کے اچانک اسی آدمی نے مجھے کہنے لگا. مجھے تمہری حالت پر رحم آگیا ہے. سو بتا دیتا ہوں ذرا کان میرے ہونٹوں کے نزدیک لاؤ میں اس کے ہونٹ داکه کر دار سا گیا. پھر ہمت کر کے جس طرح کوئی اکیسپرٹ ڈرئیور گاڑی بیک کرتا ہے. آیستگی اور شاستگی سے اپنا رایٹ کان کو اس کے ہونٹوں کے برابر لے گیا. اس نے نہایت گرجدار آواز سے کہا سنو یہاں 40 روپے کلو کے حساب سے مل رہی ہے. اور آم بازار مے 60 روپے کلو ملتی ہے. قطار میں کھڑے لوگوں نے
زور سے قہقہ لگایا. کہ اچانک قطارمیں کھڑے سب سے آ گے آدمی کی چیخ سی
سنائی دی. میں نے کہا یا الله خیر. کیا دیکھتا ہوں اس کے
ہاتھ میں دو کلو چینی والا پیکٹ تھا اور اس کے ساتھ ایک پام آلیو صابن کی ٹکیہ وجہ میری سمجھ سے بالاتر تھی میں ایک کونے میں جا کر کھڑا ہو گیا جب وہ شخص میرے کریب سے گزارنے لگا تو میں نے اس سے پوچھا. کیا یہ صابن چینی کے ساتھ کسی گفت اسکیم کے تحت ملا ہے اس نے جل کر کہا. ہاں اس سے جھاگ خوب بنتا ہے چینی آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے. پھر میری طرف رحم دلانا سا دیکھ کر کہنے لگا باؤ ” صابن وہ ساتھ زبردستی بیچتے ہیں. دیکھتے ہی دیکھتے یوٹیلٹی سٹورخالی خالی سا نظر آنے لگا باہر کھڑے لوگ سب جا چکے تھے. میں اسٹور میں داخل ہوا عملے کو اسلام کیا اور پھر سوال کیا کے سر کیا کوئی ایسا آسان طریقہ بھی ہے کے قطار میں لگنے کے بجاے چینی حاصل ہو.جائے انہوں نے کہا کے اسٹور سے کچھ خریداری کر لو اور اس کی رسید لے لو اگلے دن آنا پھر قطار میں نہیں کھڑا ہونا پڑے گا رسید دکھانا چینی مل جائے گی میں گھر کیلئے سوداسلف خریدنے لگ پڑا تو مجھے دیکھنے میں آیا کے اکثر اشیا خوردو نوش مثلا ڈالیں وغیرہ بھی وہاں نظر نہیں آ رہی تھیں خیر نہ چاہتے ہوے بھی حصول سستی چینی کے اشتیاق میں خریداری کی پانچ سو روپے سے اوپربل بنا روپے دیے رسیدلی سامان اٹھایا اور بس اسٹاپ کی طرف پیدل چلنا شروع ہو گیا سوچا چاند گاڑی یا رکشہ پے کیوں بیٹھوں بچت جو کر رہا ہوں بس سٹاپ سے میرے گاؤں کا کرایا آتھ روپے یکطرف ہے گھر آیا بھی تو بار بار خیالوں میں چینی کا ٹرک عوام کا ہجوم لمبی قطاریں دھوپ کی تمازت گردش کر رہی تھیں. رات آی بڑی مشکل سے نیند آی. خواب کیا آے ہر جگہ چینی ہی چینی نظر آی علی ا زبح ہوشگوار موڈ میں اٹھا روز مرہ مکے معمولات سے فراغت کے بعد کسی < مشن امپوسبل > کا ذھن میں خیال رکھتے ہوے تیز قدموں سے بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوا کیونکے حصول چینی کا ٹایم صبح ٩بجے سے ساڑھے گیارہ بتایا گیا تھا تیز قدموں کی آہٹ کے ساتھ ساتھ ذھن میں حساب کتاب بھی چل رہا تھا. ساڑھے بارہ کا فرق بس میں سوار ہوا تو دیکھا میرے سابق سکول ٹیچر بھی کسی کام سے شہر جا رہے تھے کنڈیکٹر آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہا تھا اب ایک طرف بچت سوچو تو دوسری طرف احترام ابھی ضمیر اتنی گہری نیند نہیں سویا تھا جلدی سے مسٹر صاحب کا بھی کرایا کنڈیکٹر کو تھمایا ماسٹرصاحب نے دعایں دیں بس سے اترا یوٹیلٹی اسٹور جوں جوں نزدیک ہوتا جا رہا تھا دل کی دھرکن تیز ہوتی جا رہی تھیں یوٹیلٹی اسٹور آ گیا ٹرک ابھی تک نہیں آیا لوگ ادھر ادھر بکھرے ہوے تھے پتا چلا وقت میں کوئی ردوبدل ہو گیا ہے لوگ چہ مگویوں کر رہی تھے ایک مزدور بولا
25
why
روپے کے فائدے کیلئے میرا 200 روپے کا نقصان ہو گیا ہے کیونکے دیہاڑی پر نہیں جا سکا.میں نے کہا دوستوں میری بات سنو چینی کو میٹھا زہر کہا جاتا ہے پھر ہم اس زہر کیلئے کیوں ہلکان ہو رہی ہیں مگھے یقین کی حد تک امید ہے ہمارے سربراہ بھی یہ میٹھا زہر استعمال نہیں کرتے ہونگے حکومت کو ہماری صحت کی بہت فکر ہے اس معاشرے کو وہ “شوگر فری ” دیکھنا چاہتے ہیں سب نے یک زبان ہو کے نعرہ بلند کیا “صدر پاکستان ……………………………………………… زندہ آباد چینی ………………………………………….bye چینی