ایک یاد گار سفر کی روئیداد – قائد ملک ویلفیر ٹرسٹ سردار یٰسین صاحب سے ملاقات

       وائس چیرمین ملک ویلفیر ٹرسٹ حاجی ملک محمد افضل پاکستان میں اپنی خوشبوئیں بکھیر کر اور ڈھیروں یادیں بنا اور سمیٹ کر جاپان واپس روانہ ہو گۓ . اب ذرا تفصیلات میں جانا چاہوں گا ، چیرمین ملک ویلفیر ٹرسٹ ڈاکٹر میجر عبدل قیوم ملک اور وائس چیرمین ملک ویلفیر ٹرسٹ حاجی ملک محمد افضل ، سینئر عھدے دار اور ممبران اسی دن سے تڑپ رہے تھے جس دن سے ان کے پیارے قائد سردار یٰسین کے والد ماجد اور سب کے بزرگ الحاج ملک عید محمد اس دار فانی سے کوچ کر گۓ تھے . یہ مرحوم بابا جی کے پسماندگان کے لئے انتہائی صدمے کا باعث تھا ہی ، پنجاب میں بھی اس صدمے کو اسی شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا ، اور یہ جو برادری کے درد کی بات جو سب کے دلوں میں آئ ہے ، اس کے لئے عظیم قائد سردار یٰسین ملک کی جدوجہد ، قربانیاں ، ہمت و حوصلہ اور استقامت ہے اور جس طرح پھر باز کے ساتھ ہی پرواز کرتا ہے ، ڈاکٹر میجر عبدل قیوم اور ایک یاد گار سفر کی روئیداد – قائد ملک ویلفیر ٹرسٹ سردار یٰسین صاحب سے ملاقات وائس چیرمین ملک ویلفیر ٹرسٹ حاجی ملک محمد افضل پاکستان میں اپنی خوشبوئیں بکھیر کر اور ڈھیروں یادیں بنا اور سمیٹ کر جاپان واپس روانہ ہو گۓ . اب ذرا تفصیلات میں جانا چاہوں گا ، چیرمین ملک ویلفیر ٹرسٹ ڈاکٹر میجر عبدل قیوم ملک اور وائس چیرمین ملک ویلفیر ٹرسٹ حاجی ملک محمد افضل ، سینئر عھدے دار اور ممبران اسی دن سے تڑپ رہے تھے جس دن سے ان کے پیارے قائد سردار یٰسین کے والد ماجد اور سب کے بزرگ الحاج ملک عید محمد اس دار فانی سے کوچ کر گۓ تھے . یہ مرحوم بابا جی کے پسماندگان کے لئے انتہائی صدمے کا باعث تھا ہی ، پنجاب میں بھی اس صدمے کو اسی شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا ، اور یہ جو برادری کے درد کی بات جو سب کے دلوں میں آئ ہے ، اس کے لئے عظیم قائد سردار یٰسین ملک کی جدوجہد ، قربانیاں ، ہمت و  حوصلہ اور استقامت ہے اور جس طرح باز باز کے ساتھ ہی پرواز کرتا ہے سردار یٰسین والے جراثیم ڈاکٹر عبدل قیوم اور ملک افضل میں بھی موجود ہیں ، بلکہ میں تو اتنا کہوں گا کے ملک ویلفیر ٹرسٹ کا کوئی بھی ورکر اس کا تعلق خواہ سندھ سے ہو یا پنجاب سے یہ جراثیم تیزی سے سب میں منتقل ہوتے جا رہے ہیں ، تو جناب اپنے عظیم قائد کے ساتھ اظہر ہمدردی و یکجہتی کرنے کے لئے سبھی تو پلک جھپکتے ہی کراچی پہنچ جانا چاہتے تھے جس میں سب سے بڑی ذمہ داری والا کام ، اپنے قائد کے خواب کی تعبیر و تعمیر تھی کہ ملک ویلفیر ہسپتال گوجرانوالہ کے چھت کی لینٹر کا کام ہو رہا تھا ، جو ممبران اور مرکزی قائدین کے ایک ایک لمحے کی فکر تھا ، جس میں الله نے سب کو سرخرو کیا اور کامیابی سے لینٹر ڈال دیا عظیم محسن اور قائد گوجرانوالہ نے سب کو کراچی کی روانگی کا پیغام جاری کر دیا ، لاتعداد ائیر ٹکٹس جاری کروا دی گئیں . مگر پھر ملک افتخار کو دفتری مجبوری پیش آ گئی ، حاجی عبدل رشید صاحب کے کمر کی درد مجبوری بن گئی تو کہیں حاجی اقبال اور ملک عبدلرحمان کی کچ گھریلو مجبوریوں نے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیں . آخر کار تین فروری 2012 کی صبح سات بجے ملک افضل صاحب کے گھر واپڈا ٹاون کی ڈائننگ ٹیبل پر پڑا ہوا ناشتہ بھی اداس تھا ، جو لوگ سفر پر جا رہے تھے وہ بھی اداس تھے ، جو رخصت کرنے آے تھے وہ بھی اداس تھے ، جو مجبوریوں کی ہتھکڑیاں پہنے ہوے تھے وہ بھی اداس تھے . اب جن کا سفر پر جانا ممکن ہوا ان میں سے ڈاکٹر میجر عبدل قیوم ملک ، ملک جیولر کے مالک منیر صاحب ، حاجی ملک ریاض صاحب المشھور حاجی عبدل غنی پانے والے ، ناشتہ بھی اسی سے کیا گیا تھا ، ان کا بیٹا رب نواز ، علامہ افتخار ، ملک افضل صاحب تھے . جبکہ لاہور سے ملک ویلفیر ٹرسٹ کے کنٹری کوارڈی نیٹر ملک اصغر مانسوی نے ہمیں لاہور ائیر پورٹ پر ملنا تھا . محترمہ والدہ ملک محمد افضل اور کبله والد محترم تھوڑی دائر کے لئے ڈرائنگ روم میں تشریف لاے سب کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور دعائیں دیں مختلف ٹرسٹیز نے اپنی گاڑیاں بمہ ڈرائیورز ائیر پورٹ پر معززین مسافروں کو روانہ کرنے کے لئے بھیجی ہوئی تھیں ، ملک محمد افضل اور علامہ افتخار جناب لیاقت علی بھٹی جنرل سیکریٹری کی بھیجی ہوئی گاڑی پر بیٹھ گۓ جبکہ میجر عبدل قیوم ، حاجی ریاض ملک اور ان کا بیٹا رب نواز دوسری کار پر بیٹھ گۓ جسے رب نواز چلا رہا تھا جبکہ باقی گاڑیوں کو واپس بیھج دیا گیا . لاہور تک جاتے جاتے ملک محمد افضل نے راقم کو ادارے کے آغاز کی جدوجہد اور اس میں خاص طور پر حاجی ریاض ملک اور لیاقت علی بھٹی کے والد محترم کا خصوصی ذکر کیا کے کس طرح انہوں نے ہمارے حوصلے بلند کے حاجی ریاض کا گوجرانوالہ میں ہوزری اور دھاگے کا کام ہے . پھر ملک شہزاد کے والد کا بہت ذکر کیا جنہوں نے ہسپتال کے تعمیر میں استعمال ہونے کے لئے سری ریت کا ذمہ اٹھا لیا پھر چچا احمد نے بہت ساتھ دیا ملک افضل نے مزید بتایا کے الله کے فضل سے تھوڑے ہی دنوں میں ان کی اپنی فیملی نے 58 لاکھ دے دیے چیلی اور جاپان سے سوا اکڑور مل گیا ابھی ابھی عمرے کے دوران سعودیہ عرب سے 9 لاکھ مل گۓ ، انہوں نے مزید بتایا کے ان کے ایجنڈے میں صحت و تعلیم سر فہرست ہے جس کے لئے مستقبل میں وہ کئی مزید ڈسپنسریاں اور سکول بنائیں گے وہ برادری کے لئے کئی میرج ہال بھی بنائیں گے جبکہ مختلف شہروں میں جو سلائی سنٹر فراہم کر رہے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کے بچیاں امور کھانا داری سے مکمل تجربہ گار ہو جائیں تاکہ انھیں اپنے سسرالی گھروں میں کوئی دقت پیش نہ آے ، وہ اپنے سسرالیوں کے لئے خود سوٹ سلائی کر سکیں وو اپنی نندوں اور دیگر رشتہ دار لڑکیوں کو خود میک اپ کر سکیں اور وہ اپنے رشتہ داروں کو طرح طرح کی مزیدار ڈشیں خود تیار کر کے کھلا سکیں . ملک صاحب نے اپنی اس تنظیم کی اصلاحی کمیٹی بھی بنائی ہوئی ہے جس کے سربراہ عبدل لطیف بھٹی ہیں جوکہ چھوٹے موٹے جھگڑوں اور اپس کی ناراضگیوں کو ختم کر سکیں اس بات پر راقم الحروف نے کہا کے واقعی جسے تاقیامت یاد رکھا جاتے آپ وہی عظیم کام کر رہے ہیں کہ یہ کلمات آپ پر صادق لگتے ہیں کہ ،                          

  ہر جوان دل میرے افسانے کو دہراتا رہے 

   حشر تک ختم نہ ہو ایسی کہانی دے دے 

 

باتوں باتوں میں پتا ہی نہیں چلا لاہور ائیر پورٹ قریب تر تھا . ہماری فلایٹ کا ٹایم 10 بجے صبح تھا اور بورڈنگ سے امیگریشن تک ہمارے پاس 1 گھنٹہ تھا . اصغر مانسوی صاحب دیدہ و دل فرش راہ کیے ہمارے انتظار میں تھے ، وہ لاہور سے ہی اپنی میزبانی کا شرف ہمیں پیش کر رہے تھے رب نواز کا چوں کہ یہ پہلا ہوائی سفر تھا اس لئے وہ ہر مرحلے پر بڑی دل چسپی دکھا رہا تھا . سکیورٹی چیک کے دوران اس نے افیسر سے کہا کے کیا اسے اپنا بٹوہ بھی دکھانا ہو گا . ملک افضل صاحب نے اکٹھے ٹکٹ بورڈنگ کے لئے شاہین ائیر ویز کے کاونٹر پر بیٹھی خوش شکل لیڈی افیسر کو دیے جس نے جب افضل صاحب کا ای ڈی دیکھا تو ان سے پوچھا کے آپکی یہ تصیور کتنے سال پرانی ہے ، انہوں نے کہا 10 سال پرانی  ہے ، خاتون نے ایک سرد آہ بھرتے ہوے کہا کے وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے . امیگریشن والوں نے بورڈنگ کارڈ پر سٹیمپ کرتے ہوے ہمیں فارغ کیا اور ہم چلتے چلتے جہاز تک پہنچ گۓ . شاہین ائیر ویز کی ہوائی میزبانوں نے ہمارا استقبال اتنے پیار اور خلوص سے کیا کے اپنی جوانی یاد آ گئی 
                         

  جاؤ ان کمروں سے آئینے اٹھا کر پھینک دو 

 

  بے ادب یہ کہ رہے ہیں ہم پرانے ہو گۓ  

           

ہمیں ہماری نشستوں پر بیٹھا دیا گیا جبکہ ہم تو پسرور کی بس کی طرح کھڑے کھڑے ہی کراچی پہنچنا چاہتے تھے کے شاید کراچی اس طرح جلدی آ جاتے جہاں ہمارے قائد اپنی تمام مصروفیت کو ترک کرکے بار بار اپنی ڈرائنگ روم کے وال کلاک کو دیکھ رہے تھے . میری اور افضل صاحب کی سیٹ ایک ساتھ چھوڑ دی گئی تھی تاکہ ان کہی باتیں کی جا سکیں . تھوڑی دیر بعد ٹرے سجانے شروع کر دیے گۓ سینڈوچ پیسٹری اور چاۓ تھی . میں نے پیسٹری اور کافی پر اکطفیٰ کیا جبکہ ملک افضل نے کچ بھی نہیں کھایا شاید اپنوں سے دوری نے ان کو زیادہ اداس کر دیا تھا جبکہ مانسوی صاحب جو میری دائیں طرف بیٹھے تھے وہ اپنے خوبصورت انداز بیان سے شہداے کربلا کی قربانیوں کا ذکر تازہ کر رہے تھے . وقت کا احساس کیپٹن سرفراز کے اعلان سے ہوا جو تھوڑی دیر بعد قائد اعظم انٹرنشنل ائر پورٹ پر جہاز کو لینڈ کرنے والے تھے کراچی کا درجہ حرارت 25 بتایا جارہا تھا . ائر پورٹ سے باہر آے تو ایک نہایت پیاری شخصیت جناب ملک یامین شیخ …. ہمیں کہ رہے تھے ادھر دیکھ ، کہ علاوہ پرنٹ میڈیا کے لوگ بھی ہمارے انتظار میں تھے . سوال و جواب سے فارغ ہوے تو باوردی شوفر دو عدد سیاہ مرسیڈیز کے ٹرنک کھولے ہمارا سامان رکھ رہے تھے مرسڈیز کا اے سی اون تھا . جس سے آپ کو کراچی کے موسم کا اندازہ ہو گیا ہو گا آگے پیچھے چلتی ہوئی گاڑیاں تھوڑی ہی دیر میں ڈیفنس میں واقع اپنے قائد کے گھر کے گیٹ کے اندر داخل ہو رہی تھیں جہاں پر سبکے قائد سردار یٰسین صاحب ملک اور ان کے ساتھ کھڑے ، عظیم شخصیت ، وزیر معدنیات جناب امام الدین شوقین صاحب ملک رہنماے ملک اپنی بےپناہ مصروفیات کے باوجود گوجرانوالہ سے آے ہوے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کر رہے تھے . ان کی یہ محبت زندگی بھر نہیں بھولے گی . چونکہ نماز جمعہ کا وقت مختصر تھا اس لئے تمام میزبانوں اور مہمانوں نے وضو کیے پھر گاڑیوں میں بیٹھا کر قریبی جامعہ مسجد میں لے جایا گیا . جہاں پر نماز کے بعد دعاؤں میں رو رو کر مرحومین کی بخشش کے لئے اور پاکستان کی سلامتی کی دعائیں مانگی گئیں . واپس قائد کے گھر لے جایا گیا ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی جناب سردار یٰسین ملک اور جناب امام الدین شوقین صاحب کے بزرگوں کے لئے فاتحھ خوانی کی گئی . اتنی دیر میں قائد کا مستعد عملہ تازہ اورنج جوس لے آیا ، جسے پیتے ہی دل و دماغ کو تسکین ہوئی جبکہ شیف حضرات ڈائننگ ٹیبل کو انواع و اقسام کے من و سلوہ سے سجا رہے تھے جناب قائد سردار یٰسین صاحب اور امام الدین شوقین ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہوے اور ہم باربی 
کیو ، چکن ، مٹن ، سی فوڈ ، فرایڈ رائس ، سلادوں سے محظوظ ہوے جبکہ کئی قسموں کے میٹھے کا علیحدہ سے انتظام تھا . کھانے سے فراغت کے بعد جناب چیرمین ملک ویلفیر ٹرسٹ گوجرانوالہ میجر عبدل قیوم ملک و وایس چیرمیں و صدر پنجاب جناب ملک افضل نے ٹرسٹ کی حالیہ سرگرمیوں کا ذکر کیا جس میں انہوں نے علامہ افتخار کی چار دیہاتوں تلونڈی موسیٰ خان ، باورے ، چک خلیل ، بھٹی بھنگو میں برادری کو ٹرسٹ کے نیٹ ورک میں شامل کرنے ، وہاں میٹنگز ، اجلاس منعقد کروانے کی خصوصی کاوشوں کا ذکر کیا جس پر  قائد سردار یٰسین صاحب اور منیسٹر امام الدین شوقین نے علامہ افتخار کی خصوصی کاوشوں پر خراج تحسین پیش کیا اور انھیں مستقبل قریب میں دیگر دیہاتوں تک یہ پیغام پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا . اب گرین ٹی بھی ہمارے سامنے رکھ دی گئی جس سے لطف اندوز ہونے کے بعد وقت کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوے قائد نے ملک افضل صاحب کے سفر جاپان کی تیاری شروع کروا دی کیوں کہ ان کی فلایٹ کا ٹایم بہت نزدیک تر تھا . نہایت اداسی اور سوگواری کی فضا تھی قائد کے چہرے پر اتنی اداسی تھی جیسے ان کا اپنا بیٹا بچھڑ رہا ہو . کچ معزز میزبان ان کو بڑی گاڑی پر پروٹوکول کے ساتھ ائر پورٹ چھوڑنے چلے گۓ جبکہ ہمیں بیڈ رومز میں آرام کرنے کے لئے لے جایا گیا سونے کو جی تو نہیں چاہ رہا تھا پھر بھی کچ دیر آرام کر لیا جبکہ ہمارے پیارے میزبان انہوں نے ذرا بھی آرام نہ کیا اور ہمارے ساتھ گپ شپ میں لگے رہے تمام میزبان ناراض تھے اور بار بار ہماری واپسی کا ٹکٹ کنسل کروانا چاہ رہے تھے اور ہمیں کچ دن اپنی میزبانی سے کئی دن بہرہ مند کرنا چاہتے تھے مگر افسوس وقت روکتا نہیں کسی کے لئے . 7 بجے ہماری واپسی  کی فلایٹ کا ٹائم تھا ہمارے پیارے میزبانوں نے ہمارے لئے چاۓ منگوا لی . چاۓ پینے کے بعد ہمارے پیارے سردار نے ہمیں اپنے گھر کے مختلف حصے دکھاۓ جو آپ تصویروں میں دیکھ سکیں گے ، اس کے بعد گھر کے اندر ہی نماز عصر با جماعت ادا کی گئی ، سردار صاحب کے حکم پر ہمیں واپسی پر ساحل سمندر لے جایا گیا جہاں پر راقم نے رئیس امروہوی کے چند اشعار سنانے 
                                       

                         یہ زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم 
                         گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم 
                          ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس
                          یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
(جاری ہے)           [nggallery id=102]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.