یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو، بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی
—————————————
بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا
جب یاد میری آے، ملنے کی دعا کرنا
————————————–
قارئین ! بچپن کی یادیں پچپن میں بھی نہیں بھولتیں. لکھنے والوں نے بچپن کے زمانہ کو اپنے اپنے انداز میں بہت لکھا ہے، اسکی ایک وجھ یہ بھی ہے، کہ عمر کا یہ حصہ بڑا سچا …سچا .. اور کھرا ہوتا ہے. کیوں کہ اس دور میں وہ خود بچہ ہوتا ہے….اسکے بچے نہیں ہوتے….
میرے نہایت واجب الاحترام دوست ملک افضل صاحب گھکڑ اور اوجلا شہر کے نزدیک جوڑا گاؤں میں پیدا ہوے. سنا ہے ایک زمانے میں اس گاؤں میں چھے ویاں یعنی ایک سو بیس کوہلو لگے ہوے تھے. اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس گاؤں میں تیلیوں کی ایک کثیر تعداد بسا کرتی تھی.
ملک صاحب کے بچپن کا بیشتر حصہ اسی گاؤں میں گزرا. جاپان میں انکی حالیہ روانگی سے ایک دن پہلے ملک صاحب کی والدہ محترمہ اور والد گرامی کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ پردیس جانے سے پہلے اپنے گاؤں کا ضرور ایک چکر لگائیں. والدین کے حکم کی تعمیل ملک صاحب کی اولین ترجیہات میں شامل ہے. جس میں وہ کبھی کوتاہی نہیں کرتے.
لہذا فوری طور پر پروگرام بنا لیا اور مجھے فون کردیا، کہ آپ میرے ساتھ ہمارے گاؤں ضرور چلیں، آپکو اپنی زمینوں کی سیر کراتے ہیں، اسطرح آپکی طبیعت بھی بہل جائیگی اور کچھ زمینی معاملات بھی نبٹ جائینگے. اور آپ سب یہ جانتے ہی ہیں کہ انکار کا لفظ بھی میری ڈکشنری میں نہیں ہے
.محبت کا جواب میرے نزدیک محبت کی انتہا ہے، اور خدا نہ کرے کوئی کسی سے نفرت کرے کیونکہ میرے نزدیک نفرت کا جواب بھی محبت کی ابتدا ہے. میں جی ٹی روڈ پر واقع پراپرٹی کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا، کہ ملک صاحب اپنی گاڑی میں وہیں تشریف لے آے. ملک صاحب کا مالی بھی اپنے دائیں بایں اور پیچھے بیشمار پھلدار اور پھولدار پودے رکھے بیٹھا ہوا تھا.
جنہیں ملک صاحب کی زمینوں پر واقع باغات میں لگایا جانا تھا. یہ پودے گھر کی مالکہ بیگم ملک افضل صاحب اور والدہ ماجدہ نے خصوصی طور پر بھجواۓ تھے . گاڑی چلاتے ہوے ملک افضل صاحب اپنے بچپن کی باتیں اور یادیں ایک نظم کی صورت میں گا کر سنا رہے تھے ،انھیں اپنے گاؤں سے.. اپنے بچپن کے سنگی ساتھیوں سے اسقدر محبت، اور والہانہ پیار ہے، کہ میں متاثر ہوے بغیر نہیں رہ سکا، ملک صاحب کی لکھی ہوئی وہ نظم یقین کیجئے، محبت کی چاشنی سے لبریز ہے. پنجابی کی اس نظم میں ملک صاحب نے گاؤں کے کلچر کی جس خوبصورتی سے عکاسی کی ہے، وہ لاجواب ہے… جسطرح پنکھج ادھاس نے چٹھی آئ ہے،،، گایا تھا، مجھے امید ہے کہ دیار غیر میں بسنے والے پنجابی اور اردو بولنے اور پڑھنے والے تمام احباب کو ضرور رلا دے گی. یہ نظم مضمون کے آخر میں شایع کی جائیگی
گاؤں قریب آچکا تھا
ایک جگہہ جہاں پر بوہڑ کا ایک پرانا درخت ہوا کرتا تھا… گاؤں والے اپنا مال ڈنگر باندھا کرتے تھے.. وہاں ساتھ ہی سائیں حاجی بخش کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا،، وہاں آجکل اسی سائیں جی کا دربار ہے.. بچے پہلے بھی وہاں کھیلا کرتے تھے اب بھی کھیل رہے تھے. وہاں پر گاڑی روک دی گئی.
بچے بڑے اور بزرگ ملک صاحب کی گاڑی کی طرف لپکے. ملک صاحب اپنے سب چاہنے والوں سے باری باری گلے ملے. بزرگوں نے انکا ماتھا چوما… وہاں پر جمع سارے لوگوں کی خواہش تھی، کہ ملک صاحب سب سے پہلے انکے گھر چلیں… ملک صاحب فرمانے لگے کہ زمینوں سے واپسی پر ضرور ملتے ہیں.. اور پھر ان سے اجازت لیکر گاڑی کو فارم ہاوس کی طرف بڑھا دیا گیا
نہر کے کنارے ساٹھ ایکڑ کے قریب سرسبز و شاداب زمین ملک صاحب کی ہے. جس کی کاشتکاری کی نگرانی جوڑا گاؤں کی ایک دیانتدار فیملی کے پاس ہے، گرمیوں میں ملک صاحب کے دوست، اور خاندان کے تمام لوگ پکنک منانے یھاں آتے ہیں.. وہ یھاں نہر کے ٹھنڈے پانی اور انکے اپنے باغات کے میٹھے رس بھرے پھلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں..بچے باغات میں کھیلتے کودتے ہیں… خود درختوں سے امرود ، آم. بیر اور دیگر موسمی پھلوں کو توڑ کر خوب کھاتے اور خوش ہوتے ہیں
یھاں مجھے ملک صاحب نے ایک بہت بڑے اعزاز سے نوازا اور وہ یہ کہ … میرے گنہگار ہاتھوں سے ایک پھلدار پودا لگوایا…. میں دل ہی دل میں اس پودے کے پھلنے پھولنے کی دعائیں کرتا رہا.. کیوں کہ ایک گنہگار کے ہاتھوں صدقہ جاریہ کا کام ہورہا تھا
ہم نہیں ہیں کوہکن لیکن ہماری یادگار
وقت کے کوہ گراں پر کچھ نقوش تیشاں ہیں
پہلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
اور
مالی دا کم پانی دینا تے بھر بھر مشکاں پاۓ
مالک دا کم پھل پھول لانا لاوے یا نہ لاوے
اور یہ شعر بھی بڑا یاد آیا کہ
کرماں باھج پیاریا جیون کوئی نہ
بھاویں سر تے لعلاں دی پنڈ ہووے
او بیجی کنک تے اگ بھو..کاٹ پیندا
بھاویں خاص نیائیں دی ونڈ ہووے …
اور درخت کٹ گۓ مگر وہ رابطے ناصر
تمام رات پرندے زمیں پہ بیٹھے رہے
غرضیکہ بڑا کچھ یاد آیا ………. وہاں کچھ دیر رکنے اور تصویر کشی کے بعد گاؤں کی طرف واپس مڑے… جہاں ملک صاحب کے دوستوں کی چاہت والی چاۓ .. ہمارا بےصبری سے انتظار کر رہی تھی…. اس دوران کاشتکاروں نے گاڑی کے بڑے ٹرنک کو خاص میرے لئے موسمی سبزیوں اور گنے گُڑ کو توڑوں میں بھر کر ایک سوغات کی صورت میں لاد دیا تھا.. کہ ملک صاحب اپنے مہمانوں کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتے.. یہ بات کاشتکاروں کے علم میں ہے .. ملک صاحب کو انہیں کہنا نہیں پڑتا
چاۓ سے دل اور روح کو گرم کرنے کے بعد نماز عصر با جماعت ادا کی گئی… مولوی صاحب جو امام تھے .. وہ بھی ملک صاحب کے کلاس فیلو تھے .. نماز کے بعد ملک افضل صاحب مجھے لیکر گاؤں کے قبرستان گۓ ..بہت سے دیگر نمازی بھی ہمارے ساتھ تھے .. وہاں جاکر فاتحہ خوانی کی. یہ منظر بڑا ہی روح پرور تھا… اس کے بعد جب ملک صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر گاؤں کی سیر کو چلے.. تو وہ منظر بڑا ہی رلا دینے والا تھا.. ملک افضل صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ایک جگہہ رکتے ملک صاحب اس وقت مجھے اس بچے کی مانند نظر آرہے تھے.. جیسے اسے کوئی بہت بڑا کھلونا مل گیا ہو
یا جس طرح کوئی بچہ اپنے بزرگوں کی انگلی پکڑ کر گاؤں میں لگے سجے میلے کی سیر کر رہا ہوتا ہے.. انکی آنکھوں میں نمی آچکی تھی. وہ مجھے چاچے فضل کی دکان.. بے بے ماچھن کی بھٹی والی جگہہ..گھر.. اور بچپن کے سنگیوں کے گھر دکھا رہے تھے.. جن میں سے اب کئی دوست اس دنیا میں نہیں رہے.. پھر وہ مجھے لیکر درزیوں کی حویلی کی طرف بڑھے.. جہاں بیٹھ کر وہ پڑھا کرتے .. اور کھیلتے .. وہ مجھے ان تنگ و تاریک گلیوں کی طرف لے کر گۓ ..جہاں وہ چھون میٹی اور لکا چھپی کھیلتے… پھر وہ مجھے لیکر اپنے ذاتی آبائی گھر چلے گۓ ..جو انہوں نے اپنے عزیزوں کو گفٹ کر دیا ہے
ہماری بہن جو بھٹی بھنگو سے بیاہ کر وہاں آئ ہے، اس نے کھانے سے انکار کے باوجود بہنوں کی محبت والا گجریلا ، دودھ کے گلاس .. السی اور دال کی بنی پنیاں ہمارے سامنے لاکر رکه دیں.. ہم نے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا .. ملک صاحب نے اسے کچھ نقدی دی .. وہ بار بار انکار کر رہی تھی… اتنے میں مغرب کی اذاں سنائی دی .. ہم اپنے میزبان بہنوئی کے ساتھ مسجد ملکوں والی .. جو خاص طور پر ملک صاحب نے الله کی رضا اور خاندان کے لئے صدقہ جاریہ کے لئےخود تیار کروائی ہے. وہاں نماز پڑھنے گۓ. الله ملک صاحب کو اجر عظیم عطا فرماے
نماز کی ادائیگی کے بعد .. بیشمار افراد کے ساتھ ہم بلآخر اس بوہڑ اور دارے کے پاس آگۓ.. جہاں گاڑی بھی کھڑی تھی … پر اب وہ بوہڑ کا درخت نہیں تھا.. جہاں ملک افضل صاحب اپنے سنگیوں کو جھولا جھلاتے .. کھیلتے … بچے اب بھی وہاں کھیل رہے تھے… نہایت رقت آمیز لمحے تھے… بچے بڑے اور بزرگ الوداع کہ رہے تھے
قارئین کرام ! اگر ہم غور کریں تو ملک صاحب کے گاؤں کی اس سیر میں آپ سب کا بچپن بھی آپکو چھپا نظر آے گا. اب آخر میں آپ ملک افضل صاحب کے ہاتھوں سے لکھی انکی اپنی نظم ملاحظہ فرمایں.. اور لطف اندوز ہوں .. پنجابی کی زبان میں ملک صاحب کی نظم آپکو بیحد پسند آیگی کہ میرے پاس ویلنٹائینز ڈے کے لئے آپکے لئے اس سے بڑا کوئی تحفہ نہیں
میرا پنڈ اے جوڑا سیان…
جتھے چڑھیا میں پروان …
تے اوہدے ہرے بھرے کھلیان
جدوں یاد آوندے تے بڑا یاد آوندے نیں
چاچے فضل دی او ہٹی……..
تے بے بے ماچھن دی بھٹی ..
تے اوناں ٹبیاں دی مٹی ….
جتھے کھیڈے ساں…………..
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
او گلیاں ، او چوبارے …….
تے او بلو دے شرارے …….
ٹھنڈی بوہڑ دی چھاویں ………
او پینگ دے ہلارے ………
جہیڑے جھونڈ دے ساں سارے ….
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
او بنٹے ، او گیٹیاں ……
جدوں کھیڈدے ساں چیٹیاں ….
تے چھپن چھپائی دیاں میٹیاں …..
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
بالا فضل دا تے جیرو ……
بیو ، اجو . . تے منیرو …..
بالا کمہار تے نالے کالو لوہار
میرے پکے سن یار …..
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
پکا او ویہڑا تے سائیں حاجی بخش دا ڈیرہ
تے میرے پنڈ دا او نیہرا …..
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
او درزیاں دی حویلی ……
جتھے ، کھیڈدے سن بیلی …..
ساجد شاہ تے پھلو تیلی ….
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
او پیلیاں او بنے ….
ہرے چھولیے تے چنے …..
تے او پونیاں دے گنے ……
جہیڑے چوپدے ساں انے …….
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
اک سوا اک نہر …….
تے جدوں شکر دوپہر ……
اوتھے نہاندے یار، غیر ……
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
میرے پنڈ دیاں کی شاناں ……..
قوماں رہندیاں تماماں ……….
تے جدوں راتی پہرا دیندا گاما …..
میں پیا کہنا ، سنا وائی ماما …..
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
میٹھے کھکڑیاں ہدوانے ……
مونگ پھلی تے مکھانے ……
ٹر جانا یاراں ول …….
خط لکھن دے بہانے ……
جدوں یاد آوندے نیں تے بڑا یاد آوندے نیں
میٹھے بیریاں دے بیر ….
کھادیاں ہو گئی بڑی دیر …..
میرے بچپنے دیاں یاداں …..
ربا دے دے کدی فیر …..
او ربا دے دے کدی فیر ……
[nggallery id=110]