. جناب اعجاز انور نے 1978 میں استنبول ترکی سے اسلامی فن تعمیر میں پی – ایچ-ڈی کی. اسی سال انہوں نے پرانی عمارتوں کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اس بارے میں اٹلی – روم سے ایک کورس کیا
1972 سے 1978 تک ریسرچ سکالر رہے ، 1978 اور 1979 میں کمپالا اور یوگنڈا میں سینئر لیکچرار رہے. انیس سو اسی سے 2006 تک نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں پروفیسر اور ڈائریکٹر آرٹ گیلری رہے.
میری اعجاز انور صاحب سے پہلی ملاقات 2004 میں اسطرح ہوئی ، کہ میں کلاسک پبلشر لاہور، آغا امیر حسین صاحب سے اپنا سفر نامہ چھپوانے کے لئے گیا ہوا تھا، جس میں ترکی ، جاپان، جنوب امریکہ اور دیگر ملک تھے ، مجھے اپنی کتاب کے سر ورق کے لئے کسی خوبصورت تصویر کی تلاش تھی، میں گریٹنگ کارڈز دیکھنے لگا، میں نے اپنی زندگی میں اتنی خوبصورت پینٹنگز والے کارڈز نہیں دیکھے تھے، ان میں پرانا لاہور ، پتنگیں ، مساجد ، حویلیاں ، لوگ دکھاۓ گۓ تھے، میں ان پینٹنگز کے سحر میں مبتلا ہو کر رہ گیا، ان کارڈز پر اعجاز انور صاحب کا رابطہ نبر درج تھا، میں نے فوری طور پر فون کیا ، یہ پیغام ریکارڈنگ پر لگا ہوا تھا، میں نے اپنا پیغام ریکارڈ کروا دیا ، کہ مجھے آپ سے اس سلسلے میں ملنا ہے، تھوڑی دیر میں ہی اس عظیم ہستی کا فون آگیا ، مجھے نیشنل کالج آف آرٹس بلا لیا گیا، میں جب کبھی اس کالج کے پاس سے گزرتا تو سوچتا کاش میرا یہاں کوئی واقف ہو، میری خوش قسمتی دیکھئے ، کہ کالج کے بیرونی دروازے پر اعجاز انور صاحب کے اسیسٹینٹ میرے انتظار میں اور رہنمائی کے لئے پہلے سے کھڑے تھے، مجھے وہ دن آج تک نہیں بھولا ، اعجاز انور صاحب نے اتنی شفقت فرمائی ، ایسی محبت فرمائی کہ میں حیران ہو کر رہ گیا ، میں تو سمجھ رہا تھا، کہ مجھے کتاب کے سر ورق کے لئے بہت پیسے دینا ہونگے. مگر ان کا خلوص دیکھئے ، میرے لئے تو خاص چاۓ بنوائی گئی ، اور ترکی کی ایک معروف مسجد ، جس کا نام مسجد والدہ سلمان ہے، کی ایک نایاب خوبصورت پینٹنگز کی سی ڈی مجھے تحفے میں صرف نہیں ملی ، بلکہ اس عظیم ہستی کی بیمثال اور لازوال دوستی ، رفاقت میری زندگی کا سرمایہ بن گئی، کہ جس عظیم ہستی کی رفاقت، احمد ندیم قاسمی، عدم، امجد اسلام امجد قمر یورش اور بیشمار دیگر سرمایہ ادب کے ساتھ رہی
اعجاز انور صاحب کی خوبصورت پینٹگز کے بارے لکھوں ، انکی اپنی خوبصورتی کے بارے لکھوں ، انکے دل کی خوبصورتی بارے لکھوں ،میرے پاس خوبصورت الفاظ نہیں ہیں، میں تو صرف اتنا کہوں گا ، کہ جس طرح وہ چاہتے ہیں کہ لاہور یا پاکستان کی تمام پرانی اور تاریخی عمارتیں مسمار نہ کی جائیں، بلکہ انکو اصلی حالت میں انکی خوبصورتی میں اضافہ ہو. جیسا کہ کہ انکی لکھی ہوئی ایک معروف کتاب نئیں ریساں شہر لاہور دیاں، میں اعجاز انور صاحب نے پوری فطری زندگی سمیٹ دی ہے. اعجاز انور صاحب اس ملک کا گراں قدر اور نایاب سرمایہ ہیں.
ان کا کوئی متبادل نہیں ہے، انکی جتنی قدر اور پزیرائی کی جاۓ، اتنی ہی کم ہے ، میری یہ الله کے حضور دعا ہے کہ الله اعجاز انور صاحب کو صحت و سلامتی والی زندگی عطا فرماۓ ، اور انکا سایہ اس سرزمین پر ہمیشہ ہمیشہ سلامت رہے
ہر جواں دل میرے افسانے کو دہراتا رہے
حشر تک ختم نہ ہو ایسی کہانی دے دے [nggallery id=117]