صادق انتہائی غربت سے مقابلہ کرتے کرتے تھک چکا تھا . اسکے پانچ بچے تھے، اسکا ذریعہ معاش شادی بیاہ پر باجے بجانا تھا .. وہ خاص طور پر کلانٹ بجاتا تھا .. اسکے باقی گروپ کے لوگوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے پیتل کے باجے اور سٹیل کے ڈرم ہوتے تھے . اس دور میں بینڈز کی اتنی بھرمار نہیں تھی ..اور دوسرا صادق اور اسکا قبیلہ تو ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے .. جہاں فصلوں کے پکنے کے بعد ہی اکثر لوگ شادیاں کرتے تھے کہ اس وقت اناج آنے سے گھروں میں خوشحالی آجاتی اور لوگ آسانی سے اپنے بیٹے بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے، تو صادق اور اسکا قبیلہ شادیوں کے انتظار میں ہی رہتے کہ ہمیں آج ہی کوئی بکنگ مل جاےگی … مگر ایسا روز روز نہیں ہوتا تھا، جس کا متبادل حل انہوں نے یہ نکالا تھا .. کہ سردیوں میں لنڈا لاکر بیچ لیتے اور گرمیوں میں برف کے گولے …. صادق کی کلانٹ سے بڑا سوز نکلتا تھا.. جو اسکے حالات کی بھرپور عکاسی کرتا تھا .. کئی شادیوں پر جب میں انھیں پرفارم کرتے دیکھتا .. تو میرا دل بڑا کڑھتا .. ان سب باجے بجانے والوں کے ہونٹ دونوں طرف سے چھیلے ہوے لگتے . انہوں نے جویونیفارم پہنی ہوتی ..وہ جگہہ جگہہ سے پھٹی اور بوسیدہ ہوتی .. انہوں نے اپنے ٹراوزرز میں بیلٹ کی بجاے ازاربند ڈالے ہوتے . انکے چہروں پر رونق کی بجاۓ ہمیشہ اداسی چھائی ہوتی . کبھی کبھار گاؤں کے منچلے لڑکے انکا دروازہ کھٹکھٹاتے .. انھیں دس بیس روپے ایڈوانس کے طور پر دیکر انھیں سات کلومیٹر دور پر واقع گاؤں میں شادی کا بتا دیتے … اور یہ سادہ لوح افراد اپنی پوری تیاری کرکے جب اس گاؤں سائیکلوں پر دوڑیں لگا کر پنہچتے تو پتہ چلتا کہ وہاں کوئی شادی وادی نہیں ہے ..ان کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے … جب کبھی جیٹھ ، ھار کے دنوں میں، میں انھیں کسی فنگشن میں دیکھتا تو یہ پسینے میں شرابور کبھی کبھی اپنے پیتل کے بڑے باجے زمین پر الٹاتے تو ان میں سے ان کا تھوک نکلتا … میں انہیں شادیوں پر دیکھتا کہ یہ لوگ بہت زیادہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے جسکی وجھہ صرف یہ تھی کہ انہیں اپنے گھروں میں جا کر دوبارہ نہ کھانا پڑے.. اب یہ لوگ جو زندگی بسر کر رہے تھے ..اس میں بیمار پڑنا بھی ایک جرم سمجھا جاتا ہے .. کہ مشکل سے دو وقت کی روزی روٹی اولاد کو کھلائیں ..یا پھر دوا، دارو کریں. اس لئے یہ بیمار ہونے پر بھی مسجدوں میں جاکر دم کرواتے.. کہ مسجدوں سے نکلنے والے نمازی پھونک مارنے کے پیسے نہیں لیتے . وقت کا پہیہ رواں دواں تھا کہ ایک دن صادق شادی پر کلانٹ بجاتے بجاتے گر گیا .. سارے گروپ نے بینڈ چھوڑ کر صادق کو پانی پلانے ، اسے ہوش میں دلانے کی بڑی کوشش کی ،لیکن بےسود .. بڑی مشکل سے صادق کو اٹھا کر قریبی ڈاکٹر کے پاس لے گۓ ..جس نے یہ کر اپنی جان چھڑائ کہ یہ معاملہ دل کا ہے .. اسے شہر لے جائیں ..
صادق کو جیسے تیسے شہر کے ہسپتال لایا گیا .. صادق کا بوڑھا باپ بھی ساتھ تھا .. صادق کو اس حالت میں دیکھ کر اسکے باپ کے آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے تھے .. صادق کو ایمرجنسی میں داخل تو کر لیا گیا .. لیکن دوائیوں کی لکھی پرچی کو دیکھ کر صادق کے والد اپنے چاروں طرف دیکھنے لگے .. کہ گاؤں کے کچھ لوگ بھی ساتھ آے ہوے تھے .. کسی نے پرچی پکڑ کر سٹور کی طرف دوڑ لگائی .. اوربلا تاخیر دوائی لے آیا .. ڈرپ اور دوائی کے باوجود صادق کی حالت نہ سنھبلی .. جس پر ڈاکٹرز نے کہا کہ آپ اسے لاہور کسی اچھے ہسپتال لے جائیں ..حالت سیریس ہے … اب لاہور کا سن کر صادق کا والد انتہائی پریشان ہوگیا .. اور وہ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب میں تو کہتا ہوں کہ صادق کو سایہ ہوگیا ہے .. اور کوئی بیماری نہیں ہے اگر اسے الله نے ٹھیک کرنا ہے تو یہیں سے ہوجائیگا اگر نہیں تو جو الله کو منظور … میں سوچنے لگ گیا کہ اگر یہ پیسے والا ہوتا .. اگر کوئی وزیر مشیر ہوتا تو کیا اپنے بیٹے کے لئے پھر بھی یہی کہتا کہ اسے سایہ ہوگیا ہے ( دیہاتوں میں) جن چمٹ جانا ، سایہ کا نقص کہتے ہیں .. نہیں صادق اگر کسی امیر ، وزیر کا بیٹا ہوتا تو اسکے لئے چارٹر طیارہ.. ارجنٹ ویزہ .. اور امریکا ،انگلینڈ کا ہسپتال ہوتا … لیکن صادق تو ایک غریب باجا بجانے والے کا بیٹا تھا … تھوڑی ہی دیر بعد ایک سٹاف نرس تیزی سے باہر آئ.. اس نے صادق کا نام لیکر اسکے لواحقین کو بلایا .. جو باہر برامدہ میں بیٹھے جنوں ..سایوں کی باتیں کرکے اپنے دلوں کو تسلی دے رہے تھے ..سب دوڑتے ہوے وارڈ میں گۓ .. صادق اس جہان فانی سے جا چکا تھا … صادق کی نعش کو سٹریچر پر ڈال کر برامدہ میں لایا گیا .. ہسپتال کی چار دیواری کے باہر سے کسی کی شادی پر بینڈ بجنے کی آوازیں آرہی تھیں .. جس میں صادق کے والد ، بھائیوں، بیوہ اور بچوں کی چیخیں دم توڑ رہیں تھیں
جہاں بجتی ہیں شہنایاں وہاں ماتم بھی ہوتا ہے