ابابیل کا گھونسلا . تحریر خاور کنگ

پاکستان گیا تھا

خاور کھوکھر(کنگ)٠

میں !ـ
بائیس نومبر سے انتیس نومبر دو ہزار گیارہ  تک صرف ایک هفتے کے لیے
که مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ بنوانا تھا
رقم کے لگنے سے دفتری  کاموں کی سپیڈ کا وه حال دیکھا که جاپان اور دوسرے ترقی یافته ممالک بھی ایسی سپیڈ دیکھانے سے قاصر نظر اتے هیں
پاسپورٹ آفس میں ارجنٹ پاسپورٹ باره دن ميں ملنے کا لکھا تھا
میں نے منگل کو جمع کروایا
اور ایجنٹ نے جمعے کو دینے کا وعده کیا
میں نے ایجنٹ
وعده پورا کرنے پر انعام کا لالج دیا
تو؟
جعمرات کو دن کے ایک بجے پاسپورٹ لے کر ایجنٹ
گاؤں پہنچ چکا تھا
اس لیے اس دفعه کا خاور کا پاکستان کا دوره
جزوی طور پر کامیاب رها
ایک دوست هیں
حاجی صاحب
ان کو پتھروں کا شوق هے ، جاپان سے جاتے هوئے ان کے لیے  کچھ ناں کچھ لے جاتا هوں
اس دفعه ٹائیگر آئی نام کے نگ تھے
ننھا بھائی کے گودام پر حاجی صاحب نے ایک بات بتائی
که جی پاکستان میں بھی اگر بنده بہت سی کوشش کرے تو انمول قسم کے پتھر اکٹھے کیے جاسکتے هیں
اس بهت ساری محنت کی تفصیل انہوں نے یه بتائی که
ابابیل کا گھونسلا تلاش کرتا پڑتا ہے
بقول ان کے ابابیل اپنا گھونسلا پلوں کے نیچے یا پہاڑوں ميں ایسی چٹانوں کی چھاؤں میں بناتی هے که جهاں انسان پہنچ ناں سکے
جیسا که سینکڑوں فٹ اونچی چٹان که جس پر انسان چڑھ هی ناں سکے
اور ابابیل اپنا گھونسلا اپنے منه کی تھوک سے بناتی هے
اب جی جب اس گھونسلے میں ابابیل کے بچے چھوٹے چھوٹے هوں تو ان کو زرد رنگ لگا دیا جائے تو
ابابیل سمجھتی هے که
بجے بیمار هو گئے هیں
اور ابابیل پتھروں سے اپنے بچے کا علاج کرتی هے که
مختلف پتھر اس کے پاس لا کر رکھتی
تاکه ان پتھروں کے اثر سے بیمار بجے شفا پاجائیں
اب جب جی یه بهت سے پتھر اکٹھے کر لے
تو اس کے گھونسلے سے یه اٹھا لیے جائیں
وغیره وغیره
اور پھر وغیره
میں نے حاجی صاحب کی بات سنی لیکن ان کو کوئی جواب نهیں دیا که
بات ایسے هو جائے گی جیسے پانی میں مدھانی
ناں لسی ناں مکھن
بس ریڑکا لگائے جاؤ
که خاور کا علم کهتا ہے که کم یاب چیز کو انسان بیماریوں کا علاج جانتا رها هے
اور جس علاقے میں عام هو ، اس علاقے کے لوگوں کو اس کاعلم بھی نهیں هوتا
ابابیل
ایک هجرت کرنے والا پرنده هے
جو که پاکستان ميں سردیوں میں نظر اتا ہے
ٹھٹرتا هوا
بجلی کی تاروں پر غول کے غول نظر اتے هیں
میں اسے سردیوں کا پرنده سمجھتا رها هوں
اس پرندے کی خوش قسمتی که اس کو مذہبی تحظ حاصل  هے
ورنه پاکستان میں پرندوں کو کھا هی جانے کا وه کلچر پروان چڑھا ہے
الله کی پناه
فاخته جیسا بھولا پرنده بھی انسان کو دیکھ کر دور سے هی اڑ جاتا هے
حاجی صاحب نے دو پرندوں کو اکٹھا کر لیا هے
ایک ابابیل
اور دوسری ایک چڑیا هوتی هے جو چین اور ویت نام کے پہاڑوں میں پائی جاتی هے
یه چڑیا اپنے منه کے تھوک سے گھونسلا بناتی ہے اور چٹانوں ميں انسانی پہنچ سے دور بناتی ہے
اس چڑیا کا یه گھونسلا جاپان اور چین ميں کھیا جاتا هے
اور
اچھی خاصی مہنگی ڈش کے طور پر جانا جاتا هے
کیونکه اس کےگھونسلے کا حصول خاصا جان جوکھوں کا کام ہے
لیکن
یه کام کرنے والے جیالے بھی هیں
جو بانسوں کے تکنیکی استعمال سے اس کو اتار هی لیتے هیں
لیکن
اس چڑیا کے متعلق پتھروں کو اکٹھا کرنے یا علاج کے متعلق میں نے کچھ نهیں سنا هوا
اور ابابیل
جو که پاکستان ميں سردیوں کا پرنده هے
جاپان میں گرمیوں کا پرنده ہے
اگست اور ستمبر میں غول کے غول نظر اتے هیں اور فیکٹریوں گوداموں ، پرانے گھروں میں گھونسلے بنا کر انڈے بچے پیدا کرتے هیں
جاپان دوستوں میں ابابیل کے سردیوں کا پرنده هونے کا کہیں تو
ان کا جواب هوتا هے که نهیں ابابیل
تو گرمیوں کا پرنده ہے
جو انڈے بچے پیدا کرنے کے لیے جاپان اتا ہے

بس یه جی ایک مثال ہے
پاکستان کے نالج کی
که مغالطے هی مغالطے
اور مبالغے هی مبالغے
اور ان مغالطوں اور مبالغوں کو هی حقیقت جاننے کا یقین !!!ـ
الله کی پناه

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.