ہمارے ایک بزرگ تھے ( اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے) ،انہون نے گوجرانوالہ کے ایک گاؤں جنڈیالہ باغ والا سے نکل کر یورپ میں ٹھکانا کیا تھا ۔
ستر کی دہائی کے اخری سالوں کی بات ہے ، حاجی صاحب سپین کے شہر بارسلونا میں سیٹل ہوئے ۔
ایک دفعہ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ
بارسلونا میں ، اس زمانے میں یورپ میں سیٹل ہونے کی جدوجہد، پانچ دوست بھی شامل تھے ، ان پانچ دوستوں نے کاغذوں کی مہم بھی مل کر سر تھی ۔
ان مہمات کے دوران انہون نے مل کر یک مکان بھی کرایہ پر لیا ، جس میں ضروریات زندگی کی اشیاء بھی مل کر خریدیں ۔
روزی روزگار کے حصول کے معاملات ، ویزے کے انتظام کے دوران ان لوگوں نے بڑی منت سے ایک ایک چیز خریدی تھی ، فریج ، واشنگ مشین ، ٹیلی وژن ،اور ایک ایک پلیٹ گلاس ، چمچے کانٹے کی خریداری بھی ان کی یادوں کا ایک حصہ تھیں ۔
بستر قالین اور کپڑے خشک کرنے والے ہینگر ، یہ سب چیزیں کوئی ایک دن میں ہیں بن گئیں تھی سال ہا سال لگے تھے ۔
کام کاج بھی چلتا رہا ، مسائل میں کمی واقع ہوئی ، ماحول بدلا تو ایک دوسرے کی عادتوں پر تنقیدی نظر بھی پڑنے لگی ، تنقید کرنے والوں میں بھی نقائص نظر انے لگے ۔
تو؟
بات تو تکار سے بڑہ کر علیحدگی تک پہنچ گئی ۔
پانچ میں سے ایک دوست نے اکیلے میں مکان کرائے پر حاصل کر لیا ۔
اکیلے میں مکان حاصل کر لینے والے دوست نے مشترکہ مکان میں میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا ۔
باقی کے سب دوستوں نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، کہ چیزیں مل کر خریدی ہیں تو ، ان کا بٹوارہ بھی ہو سکتا ہے ۔
سب دوستوں نے مل کر حساب کر کے پانچواں حصہ کرنے کے لئے محفل بنائی ،تو پانچویں دوست کا مطالبہ تھا کہ میں “ ایک ایک” چیز میں سے پانچواں حصہ لوں گا۔
پر پلیٹ اور پر کپ میں سے ، ہر چمچے اور ہر کانٹے میں سے ، فریج میں سے اور واشنگ مشین سے ہر قالین سے اور ہر بستر سے “ کاٹ “ کر میں اپنا پانچواں حصہ لوں گا ۔
اس بات پر بہت دن بحثیں ہوئیں ، بہت سے معقولیت پسند اس معاملے میں دخیل ہوئے ۔
اس بحث میں ایک دفعہ تو معاملہ اس نتیجے تک بھی پہنچا کہ
سارا سامان تم اکیلے لے جاؤ ، لیکن سامان کو کاٹ کر بانٹ کر خراب نہ کرو۔
لیکن
ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ
اس بندے نے ہر چیز میں سے کاٹ کر اور توڑ کر اپنا حصہ لیا تھا ۔
ہمارے بزرگ ، حاجی صاحب کا اصرار تھا کہ ایسا واقعہ ہوا تھا یہ کوئی کہانی نہیں ہے