ستر کی دہائی کے اخری سالوں میں سے کسی سال کی بات ہے ۔
ہمارے گاؤں میں ایک کتے نے تین اور کتے ساتھ ملا کر ایک ٹولی بنا لی تھی ۔
لیڈر کتے کی قیادت میں یہ چار کتوں کے ٹولے کا گاؤں والوں کو اس وقت احساس ہوا جب ان کتوں نے جوگیوں کا عید پر قربانی کے لئے لیا ہوا بھیڈو لیلا پھاڑ کھایا ۔
جوگیوں کے گھر کے سامنے ہی پسرور روڈ کے دوسری طرف ، پرانی والے چوہدریوں کے کھیتوں میں ، کتوں کی اس واردات کو دیکھنے والے لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی ۔
بھیڑ اس لئے لگی کہ کتوں کو بھیڈو پر حلمہ کرتے دیکھ کر پہلے پہنچنے والے لوگوں لوگوں نے جب کتوں کو ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی تو ، کتے بجائے ڈرنے کے ، غرا کر ان لوگں پر بھی لپکے ، جس سے ڈر کر لوگ ایک فاصلے پر کھڑے ہو گئے اور دوسروں کو بھی نزدیک جانے سے منع کرنے لگے ۔
سارے گاؤں میں ان کتوں کی دلیرانہ واردات کے چرچے ہونے لگے ۔
دوسرے ہی دن ان کتوں نے فقیروں کی کھوئی کے اوپری طرف ، کمہاروں کے بھیڈو لیلے کو پھاڑ کھایا ۔
چاروں کا یہ ٹولہ پسرور روڈ پر بڑی منظم اور دھلکی چال میں چلتا ہوا گاؤں کے شرقاً اور غرباً گشت کرنے لگا ۔
قصائیوں کے پھٹوں کے نزدیک بڑے دلیرانہ انداز میں بیٹھ جاتے تھے اور جب تک یہ چار کا ٹولہ ہوتا تھا کسی اور کتے کو قصائی کے پھینکے ہوئے چھچھڑے کی طرف لپکنے کی جرآت نہیں ہوتی تھی ۔
لیکن منگل بدھ کے دن جب کہ قصائی گوشت کا ناغہ کرتے ہیں ۔ یہ چار کا ٹولہ کسی نہ کسی کی بھیڑ یا بکری پھاڑ کھاتے ۔
دو تین ہفتے گاؤں میں انہی کے چرچے اور باتیں ہوتی رہیں ، ۔ بڑی عمر کے مردوں کے ہاتھ میں چھڑیاں نظر انے لگیں کہ جب یہ کتے سڑک پر چل رہے ہوتے تھے تو سامنے سے انے والے انسانوں کو طرح دے کر گزرنا پڑتا تھا ، ورنہ منظم کتے، دانت نکوستے ہوئے پاس سے گزرتے تھے تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا ۔
دین دار لوگوں نے ایک دفعہ ڈانگیں لے کر منظم ہو کر ان کتوں پر حملہ کیا ، پہلے تو کتے ڈٹ گئے لیکن آدمیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے غراتے ہوئے بڑی اکڑ سے پسپا ہوتے ہوئے کھیتوں میں فرار ہو گئے ،لیکن چند ہی گھنٹوں کے بعد پیپل والی ٹیوب ویل موٹر کے پاس ٹہل رہے تھے ۔
گوشت کے ناغے کے ، منگل بدہ کے روز طھی ان کتوں نے واردات ڈالی اور گاؤں میں قربانی کے لئے پالے ہوئے دو جانور اور کم ہو گئے ۔
دین داروں کے ڈانگ بردار ناکام حملے کے بعد خوشی محمد فقیر کی قیادت میں رائفل اور ڈانگوں کے ساتھ کتوں کو قتل کرنے کی مہم نکلی ۔ خوشی محمد فقیر رائفل لئے گھوڑے پر سوار تھا اور ساتھ میں ڈانگ بردار دین دار ہانکا کرنے اور گھیرنے کے لئے شامل تھے ۔
ان لوگوں نے چار کے ٹولے کتوں کو” ہوئے والی” (گاؤں) اور تلونڈی کے درمیانی کھیتوں میں گھیر لیا ، راجباھ ( سوئے ) کی طرف فرار ہوتے کتوں میں سے تین کتے خوشی محمد فقیر نے رائفل کے فائیر کر کے مار گرائے ، لیکن لیڈر کتا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔
لیڈر کتا کئی دن تک گاؤں میں نظر نہیں آیا ۔
کوئی دو ہفتے بعد یہ لیڈر کتا گاؤں میں پھر نظر انے لگا ، لیکن اب یہ کتا بڑا مسکین سا بنا ہوا سڑک کے درمیان چلنے کی بجائے مکانوں کی دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتا تھا ۔
قصائیوں کے پھٹے کے پاس چھیچھڑوں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے کتے اس کو دیکھ کر اس کے لئے جگہ چھوڑ دیتے تھے ۔
اس لیڈر کتے نے بھی دوسرے کتوں اور انسانوں پر غرانا چھوڑ دیا تھا ۔
اس کتے کو پھر ساری زندگی کوئی ٹیلنٹ والے کتے نہ مل سکے جس لئے یہ لیڈر کتا ایک اور ٹولہ نہ بنا سکا ۔
یہ کتا مدتوں زندہ رہا ۔ گاؤں میں لوگ اس کی طرف اشارے کر کے بتایا کرتے تھے ۔
یہ ہے وہ کتا جو ساتھی کتوں کے ساتھ مل کر لوگوں کے جانور پھاڑ کھایا کرتا تھا ۔