[singlepic id=35 w=120 h=140 float=left]مچھلی فارم تلونڈی موسیٰ خان تاریخ کی نظر میں. 1956 میں پہلے یہ ایک آوے (آوھ بمعنی وھ جگہ جہاں برتن پکائے جاتے هیں)کی شکل تھا.پھر تھوڑے عرصے بعد یہ اینٹوں کی بھٹی بنا. 1973 کے اشتمال میں چوہدری اقبال چیمہ کو یہ ساڑھے 3 ایکڑ پر محیط یہ رقبہ ملا.یہ زمین کاشتکاری کے قابل نہیں تھی.کیونکے لوگوں نے مٹی نکال نکال کر اور بارشی پانی کی وجہ سے یہ ایک تالاب کی شکل اختیار کر چکا تھا.اسکے پہلے منتظم ملک وریام ،اور انکے بیٹے ملک منظور،ملک مسعود اور شہباز ملک عرف باجہ تھے.وہ بند بنانے اور زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے لئے انتھک کوشش کرتے رہے ،حتہ کے وہ شہباز کو لیٹا کر بھی مٹی کے بند باندھتے رہے.ٹریکٹروں اور بلڈوزروں کی مدد سے بھی اس زمین کو ہموار کیا جاتا رہا.اگر کوئی فصل لگی بھی گئی،تو کبھی ہوئی ،کہیں نہ ہوئی.آخر کار اس زمین کے مالک اقبال چیمہ اور انکے عزیز ریاض چیمہ نے اسے مچھلی فارم بنانے کا منصوبہ بنایا،پھر سینکڑوں مزدورں نے مل کر اسکی مٹی نکالی.اور اس سے اسکی پگڈنڈیاں بنایں.اسکی باڑھ بنائی،اور 1978 میں ایک خوبصورت مچھلی فارم تیار ہوچکا تھا.اسکے کچھ عرصے بعد اسکے انتظامی امور ماسٹر منور رحمانی کے پاس آگئے. گاؤں والوں کے لیے ایک سیر گاھ سی بن گئی ، شادی پر آے مہمان بھی سیر کے لئے مچھلی فارم چلے جاتے ہیں.اور گاؤں کے مرد اور خواتین بھی یھاں سیر کر لیتے ہیں.منتظم منور صاحب کے مطابق ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے مچھلی کا یہاں کاروبار اتنا منافع بخش نہیں ،وہ 3500 کے قریب ہیچری سے پونگ لاتے ہیں .اور سیزن میں تقریباً 50 من مچھلی تیار نکلتی ہے.اسکی وجہ یہ ہے کے زمیں کی سطحہٰ سے مچھلی فارم کی گہرائی 5 فٹ سے بھی زیادہ ہے.
[nggallery id=6]