تقریباً سبھی اسے آنٹی شہلا کے نام سے ہی پکارتے تھے.ما سواءے اسکے خاوند کے،شناختی کارڈ میں لکھی گئی تاریخ پیدائش کے مطابق وہ پینتا لیس برس کی ہورہی تھی،مگر وہ مانتی نہیں تھی.خیر مانتی بھی کیسے وہ اپنی عمر سے دس سال چھوٹی ہی لگتی تھی.اسکا چہرہ سانولا اور نین نقش بڑے تیکھے تھے.سڈول بدن تھا جسم ڈھلکا ہوا نہیں تھا.سرتاپا اسے دیکھ کر اکثر مردوں کو جیسے بجلی کا جھٹکا سا لگتا ،وہ راستے میں چلتے سامنے والے کی نظروں میں دیکھتی تھی ،کہ وہ کدھر دیکھ رہے ہیں.آنٹی جب اپنے میاں کے ساتھ کھڑی ہوتی،تو وہ میاں بیوی کم ہی لگتے تھے.اسکا میاں چوہدری صاحب کا خانساماں تھا.آنٹی اگر چوہدری صاحب سے بچی ہوئی تھی تو اسکی وجھہ اسکے خاوند کا معاملا فہم ہونا اور اسکی حاضر دماغی تھی.ورنہ آنٹی شہلا خود بھی بچنا نہیں چاہتی تھی،بلکہ کسی طوفان سے ٹکرا کر ملیا میٹ ہونا چاہتی تھی..کیونکہ ہر وقت اسکی زبان پر یہی گلہ رہتا تھا کہ اسکے شوہر نے اسے مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا.پھر لوگ مسکرا کر پوچھتے ،تمھارے دو بچے ہیں ،اس پر وہ معنی خیز انداز سے مسکرا دیتی.گاؤں کے سبھی ماڈرن جوان اسے آنٹی کہ کر ہی بلاتے تھے .پختہ عمر کے لوگ اسے ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے تھے،کیوں کہ وہ چوہدری صاحب کے ملازم کی بیوی تھی،آنٹی کی طبعیت بڑی چلبلی ،شوخی اور شرارت سے بھرپور تھی.اسے ناصر کاظمی اور فیض کا کلام کچھ آتا تھا،جو وہ کبھی کبھار دوسروں پر اپنا سکہ جمانے کی غرض سے سناتی بھی تھی.اب اسکی بیٹی روشنی کوئی سولہ برس کی ہورہی تھی.بیٹا ابھی کوئی دس سال کا تھا،چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا.لوگوں کی نظروں کو آنٹی شہلا خوب بھانپ لیتی تھی.اسے خوب پتا تھا کہ اسکی بیٹی جوان ہوچکی ہے،آنٹی کو اسکے ہاتھ پیلے کرنے کی بھی فکر لگی ہوئی تھی.گجرات میں انکا کوئی عزیز فوت ہوگیا،یہ لوگ وہاں افسوس کے لئے گۓ.آنٹی کی بیٹی اور بیٹا بھی گۓ.گجرات کے اس اندھیرے اور سوگواری والے گھر میں،روشنی کی وجھہ سے روشنی سی پھیل گئی. زندگی سے ہارنے والے کا بیٹا ،روشنی پر دل ہار بیٹھا .اس لڑکے کے پاس اچھا روزگار تھا،آنٹی نے جلدی سے حامی بھر لی.اسطرح سے روشنی کا رشتہ طے ہوگیا،کوئی دو ماہ بعد ہی شادی ہوگئی.لڑکا ریلوے میں ملازم تھا.لاہور میں درمیانے سے درجے کا کوارٹر اسے ملا ہوا تھا.شادی پر مسہری اسی کوارٹر میں سجائی گئی تھی.روشنی اپنی ماں کے برعکس بڑی دھیمی اور ٹھنڈے مزاج کی تھی،جبکہ اسکا شوہر جاوید جنسی بھیڑیا تھا.وہ تھوڑے دنوں بعد ہی روشنی سے گلہ کرنے لگا ،کہ تم بڑی ٹھنڈی ،دھیمی ہو.روشنی نے ایک دن تنگ آکر اسے کہا کہ پلیز مجھے پریشان نہ کیا کرو ،اگر تمہارا جی نہیں بھرتا تو بیشک دوسری شادی کر لو.اسے اپنے خاوند سے چڑ سی ھوگئی تھی.اسکا کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا.سارا دن بڑی اداس رہتی،کام کاج کرتی،پھر بستر پر اوندھے منہ لیٹ جاتی،کبھی کوئی کتاب تو کبھی ٹی وی دیکھنے لگ جاتی.ایک دن سامنے والی ہمسائی گھر آئی،وہ اسکے ساتھ گپ شپ کرنے لگ گئی جس سے اسکا دل بہل گیا.اور تب یہ معمول بن گیا.ہمسائی کبھی کبھار اسکے لئے کچھ کھانے کے لئے بھی لے آتی.روشنی بھی اسی طرح اپنی اس دوست کا بڑا خیال رکھتی.روشنی کی اس دوست کے شوہر کو دبئی گۓ ایک سال ہونے کو تھا،،وقت پر لگا کر اڑا ،اب روشنی کو پیٹ سے ہوے نو ماہ ہونے کو تھے .روشنی کی دوست کو پتہ تھا،چند دنوں بعد ڈیلیوری تھی،اور وہ دن بھی آگیا ،اسکا شوہر جاب پر ہی تھا،روشنی کی دوست ہی اسے لیکر ہسپتال چلی گئی. ادھر روشنی کی والدہ اپنی بیٹی سے ملنے اسی کوارٹر پر آگئی ،جاوید بھی ابھی ابھی گھر لوٹا تھا.اور ہسپتال میں کچھ کھانے پینے کی اشیا لیکر جانے کی تیاری کر رہا تھا.آنٹی شہلا کی طبعیت بھی خراب تھی.وہ آتے ہی بستر پر دراز ہوگئی،سفر اور تنہائی نے اسے تھکا دیا تھا،جاوید نے اسے چاے بنا کر پلائی اور کہنے لگا کہ آپ تھوڑا آرام کر لیں پھر ہسپتال چلتے ہیں.لیں میں آپکے پاؤں دبا دیتا ہوں.آپ تھک گئی ہونگی ،پھر ہسپتال جا کر کہاں آرام ہوگا،پاؤں دباتے دباتے وہ آنٹی شہلا سے روشنی کے بارے گلہ کرنے لگا.آنٹی میں اسکے ہوتے ہوے بھی تنہا ہوں،وہ میرے ساتھ بڑی سرد مہری سے پیش آتی ہے.میری خواہش کا ذرہ بھر خیال نہیں رکھتی،وغیرہ،وغیرہ ..یہ کہ کر اسنے رونا شروع کر دیا ،جبکے آنٹی نے اسے دلاسہ دیا .پاؤں دباتے دباتے جاوید نے آنٹی کے پاؤں چومنا شروع کر دئیے.آنٹی کا جسم آگ کی طرح دہک رہا تھا،پہلے تو وہ یہ سمجھی کے جاوید عقیدت ،احترام کے ساتھ ایسا کر رہا ہے،مگر حقیقت کچھ اور ہی تھی..پاؤں دباتے دباتے اسکے ہاتھ اوپر کی طرف جانا شروع ھوگئے.آنٹی تو جیسے مدہوش ہوچکی تھی.اور پھر وہ دونوں ہی حیا کی دہلیز پار کر رہے تھے.آنٹی نے ایک بار بھی اسے نہیں روکا،ادھر روشنی کے گھر میں بیٹا پیدا ہوا ،ٹھیک ایک سال بعد آنٹی شہلا نے ایک بیٹی کو جنم دیا.آج اس واقعے کو پندرہ سال ہوچکے ہیں.یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے ،اس بات کا روشنی کو بھی پتہ چل گیا تھا،مگر جاوید آج بھی اپنی بیٹی کو سالی سمجھ کر چھیڑتا ہے ..<نوٹ>اس کہانی کے سبھی نام ،مقامات ،واقعات،بلکل فرضی ہیں.اس لئے کوئی بھی فرد یا افراد یا ادارہ اسے کسی سے بھی منسوب نہ سمجھےنہ کرے .پیشگی شکریہ