ایک سال پہلے هی داخل کروا دیا تھا جی اباجی نے سکول میں مجھے
ان کا خیال تھاکہ ميں ایک سال پہلے سکول داخل هوکے ایک دفعہ فیل هو کراپنی عمر کے لڑکوں کے ساتھ شامل هو جاؤں گا
سکول ميں میرے ساتھ تھے اروڑے جولاھ کا رمضان عرف جالی، جیدو درزی ، راشد پٹواری، یوسو مہار ، اور باقی جب جب یاد آئیں کے لکھتا جاؤں گا
یه جیدو بھی ایک ہی جباتیں گھڑنے کا ماہر بندھ تھا کہ ایک داستان گو، لیکن ہر جھوٹ میرے سر باندھ دیتا تھا،
بہرحال ابا جی کے پروگرام کے مطابق میں فیل ہو کر اپنے ہم عمروں کے ساتھ پرائمری کی پہلی کلاس ميں شامل ہو گیا ،
جن کے ساتھ میں نے تعلیم حاصل کی ان ميں میرا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرا پہلا یار تھا یوسی لوہار! محمد یوسف ولد محمد شریف لوہار مشین والے
اور دوسرا ہوتا تھا کاکا بجلی والا
هر صبح سکول آتے هیں اپنے اپنی بوریاں بچھا کر بیٹھ جاتے تھے ،
کئی دفعہ ہم ایک دوسرے کے یار ٹوٹے ، لیکن اگلے دن یاد نہیں ہوتا تھا اور پھر ایک ہی جگہ بیٹھے هوتے تھے اور بعد میں یاد آتا که هم تو کل سکول سے چھٹی کے وقت یار ٹوٹ گئے تھے
یه کاکا بجلی والا بڑی کتی چیز تھا یه هم کو لڑواتا تھا
مجھے بڑا پیارا لگتا تھا اس لیے میں نے کئی دفعه اس کی وجہ سے لڑائی لی ، اور اگر لڑائی میں مجھے مار پڑتی تو یه کاکا اس پر خوش هو کرکلکاریاں مارتاتھا،
بہت بعد جا کر مجھے اس کی سمجھ آئی تھی
گورنمنٹ پرائمری سکول تلونڈی موسے خان، عرف قبراں والا سکول ، کمہاروں کے محلے سے باورے کی طرف گاؤں سے نکلتے هی میدان تھا جس کو لوگ گھڑی پن کہتے تھے
چھوٹے گھڑے توڑنے کی جگه، وجه تسمیه کی سمجھ نہیں هےکه پاکستان بننے سے پہلے ہندوؤں کی کوئی رسم هوا کرتی تھی جس کی وجه سے یه نام تھا اس میدان کا، اس کے اوپر مغربی طرف گاؤں کا قبرستان تھا اور اس کے اوپر کمہاروں کا قبرستان علیحدھ تھا اور اب بھی ہے ، کمہاروں کے قبرستان کے سامنے سڑک کی دوسری طرف عسائیوں کا قبرستان تھا، جس کی زمین کم هوتے هوتے چند مرلے هی رھ گئی تھی که عیسائی بے چارے چیمہ لوگوں کو روک نہیں سکتے تھے، لیکن اب پھر یه قبرستان کچھ اپنی اصلی رقبے کے قریب پہنچ گیا هے ،
کمہاروں کا گاؤں ميں محلہ بھی علیحدھ تھا ، ان کا کنؤاں بھی علیحدھ تھا اور ان کی مسجد بھی علیحدھ
کمہاروں کے بزرگ کیا سوچتے تھے مجھے اس کی سمجھ نہیں آسکی ، لیکن مرزائیوں کی مسجد کمہاروں کے محلے میں تھی جب که ایک بھی کمہار احمدی نہیں هےاور ناں تھا
احمدیوں سے یاد آیا که عیسائوں اور کمہاروں کے قبرستان سے اوپر مغرب کی طرف اب مرزائیوں کا قبرستان ہے
اور دور دور سے مرزائیوں کے مردے یهاں لا کر دفنائے جاتے هیں
قبرستان اور کمہاروں کے قبرستان کے درمیان سے ایک کچی سڑک مغرب کی طرف جاتی هے اس پر قبروں ميں ایک خانقاھ نما بنی هوا کرتی تھی جس کے گرد اینٹوں کی دیوار کھڑی تھی اور اندر قبر پر مٹی کے بنے هوئے گھوڑے سینکٹروں کی تعداد میں پڑے هوتے تھے
اس کو گھوڑے شاھ کی خانقاھ کہتے تھے،
مجھے یاد ہے که اس راستے کے شمال کی طرف ابھی قبریں نہیں بنیں تھیں ، اُس واقت کی بات ہے که قبرستان گے گرد جو ٹاہلی کے درخت هیں یه میں نے اور کالو مہر نے لگائے تھے
ٹاہلیوں کی قلمیں چوھدری قمر الہی نے لا کردی تھیں
اور میں نے اور کالو مہر نے جو که عمر میں مجھ سے بڑا تھا
نے مل کر ایک لوہے که کلی کے ساتھ زمین میں سوراخ کر کرکے قلمیں ٹھونک دی تھیں
انیس سو تہتر کی بات هے یه ـ
گاؤں کے شمال میں گھوڑے شاھ ، جنوب میں روشن شاھ ولی اور مغرب میں پیر بهاول شیر کی خانقاھ هوا کرتی تھی ، میرے ننھیال تلونڈی میں هی هیں ، میری نانی جان هر جمعرات کو ان خانقاہوں پر میٹھی روٹی جس کو روٹ کہتے تھے چڑھانے کے لیے جایا کرتے تھے
صرف اس دن سائیں غفور گھوڑے شاھ کا متولی هوتا تھا
اور پیر بہاول شیر اور روشن شاھ ولی کی خانقاھ پرطافو فقیر کے کھر کے افراد هوا کرتے تھے یه طافو فقیر بھی میرا کلاس فیلو هوا کرتا تھا ، اس کے دانتوں پر اتنا میل جما هوتا تھا که میں نے زندگی ميں کہیں کسی اور کے دانتوں پر اتنا میل جما هوا نہیں دیکھا ہے
ان سب خانقاہوں پر کبھی کوئی نہیں جاتا تھا بس جمعراکے روز روٹ کھانے کے شوقین لڑکے یهاں اکٹھے هو جایا کرتے تھے، روشن شاھ ولی کی خانقاھ پر اختر عرف لالی ضرور هوا کرتا تھا یه لالی بھی میرا کلاس فیلو تھا پرائمری میں بلکه سارا پرائیمری کا دور اس کا رول نبمر میرے پیچھے هوا کرتا تھااور صفدر فقیر عرف سبو فقیر میرے اگے هوا کرتا تھا
زمینوں کی اشعمال هوتی دیکھی هے جی ہم نے بچپن میں
گاؤں کے مشہور کھوھ (کنویں) ختم هو گئے راستے بدل گئے رسمیں اور خاندانی تعلقات بدل گئے
ککھاں والاکھوھ جس کی محفلوں کی باتیں بڑوں سے سنی هیں ، مجھے اس کی یاد بس اتنی سی هے که دادے کے ساتھ وهاں ایک دفعہ گیا تھا، عیسائیوں کی ٹھٹی کے پاس سے بڑا پہے گزرا کرتا تھا مجھے اس کی یاد بس اتنی هے که دادےکے ساتھ جب یہاں سے گزرے تو ایک سوکھے هوئے دریا کی طرح کی وسیع گزرگاھ تھی جس ميں عسائیوں کے بابے بان کی رسیاں بٹ رهے تھے
ایک کھوھ کے پانی سے سیراب هونے والے کھیتوں کے مالک مختلف خاندانوں کےهوتے هوئے بھی ایک خاندان کی طرح سے رہتے تھے
گنویں کے گرداگرد اپنے اپنے جانوروں کے باندھنے کا انتظام هوا کرتا تھا ، هر کھوھ کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی هوا کرتی تھی ،هائے کلیجہ منه کو آتا ہے اس زمانے کا سوچ کر، لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے اتنا پیار اور عزت تھی که اج اس کا تصور بھی نہیں هے
ٹی وی نہیں هوا کرتے تھے
لوگ ڈیروں پر محفلیں جما کر بیٹھا کرتے تھے
اور جب ایک هی معاشرے ميں رہنا مجبوری هو تو بندے کو چنگاهی بن کے رہنا پڑتا ہے که ورنہ اگر بندھ برا مشہور هوجائے تو گاؤں ميں رہنا مشکل هو جاتاہے
گاؤں گے مشرقی طرف کے کھوھ ویسے هی رهے جو که هم نے دیکھے هیں
روپے والا، رانجھیاں والا،اور بھرو والا
ان پر ایک هی کھوھ پر رہنے وال مختلف خاندانوں کا اکٹھے رہنا دیکھا ہے
جب هم نے هوش سنبھالا تو کھجوران والے کھوھ پر رحمت کمہار کی کاشتکاری تھی، ساتھ کے گاؤں گنڈم کی زمیں جہاں تلونڈی سے ملتی هیں وہاں دو بھائیوں کے علیحدھ علیحدھ کنویں تھے سنیار والا خورد اور سینار والا کلاں ، سنیار والا کلاں پر میرے چاچے یونس کی کاشت کاری تھی ٹھیکے کی زمین پر جو که بعد میں رانجھیاں والا میں منتقل هو گئی
سنیار والا میں کاشت کاری کے دوران کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے که میں اور چاچا جی (دادا جان) کماد کی چھوئی اتار رهے تھے میں اس وقت غالباً چوتھی میں پڑھتا تھا
پاس ميں ہمارا گھوڑا بھی چر رها تھا اور یہیں پر چاچے ابراہیم (دادے کا چھوٹا بھائی) کے گدھے بھی تھے ، ان ميں ایک گدھابڑا شیطان تھا ، مٹیالے رنگ کا یه گدھا مجھے اچھی طرح یاد ہے
اس گدہے نے دو تین دولتیاں گھوڑے پر چلائیں تو گھوڑا اپنی جگه سے ہٹ گیاتو اس کدھے نے اس کا تعاقب شروع کر دیا اب گھوڑا اگے اگے بھاک رها هے اور گدھا پیچھے پیچھے
لیکن گھوڑا ایک دائرے میں بھاگ رها هے اور همارے گرد هی چکر لگاتا هے اور ہنہنا کر هماری توجه دلاتا ہے که یه کھوتے دا پتر مجھے تنگ کررها هے
دادا جی نے ایک دو دفعه ؛ هو هو ‘ کہا لیکن گدھے نے ایک سیکنڈ کے لیے سپیڈ کم کی اور پھر گھوڑے کے پیچھے
چاچا جی اٹھے اور بھاگ کر گدھے کی گردن ميں ہاتھ ڈالا اور اس کو پٹخ کر نیچےپھینکا اور اس کے ناک پر دو تین مکے جڑ دیے
گدھے نے اٹھ کر جسم کو جھاڑا اور بھلا مانس بن کے کھڑا هو گیا
مجھے بڑی حیرانی هوئی که گدھے جیسے جسیم جانور کو چاچا جی نے کیسے پٹخ دیا ہے
میں نے پوچھا که چاچا جی یه کیسے کیا ہے تو چاچا جی ایک دفعہ پھر گدھے کو پکڑا اور اس کی گردن پر بازو ڈال کر اس کی اگلے ٹانگوں کو اڑنگا لگایا اور گدھا پھر نیچے
چاچا جی نے بتایا که ایسے هی پتر، کسی بیل کو یا گھوڑے کو بھی پٹخا جاسکتاهے
ستر کی دھائی میں تعلیم کا یه حال تھا که گاؤں میں صرف دو یا تین لڑکے تھے جو سکول نہیں جاتے تھے
باقی سارے گاؤں کے لڑکے سکول جاتے تھے بلکه ابھی گنڈم باورے اور هوئے والی میں سکول نہیں بنا تھا س لیے ان دیەات کے لڑکے بھی همارے ساتھ هی تعلیم حاصل کرتے تھے،
گنڈم کے سکول کے بننے کا مجھے یاد هے که جب اس کی عمارت تعمیر هوئی تھی اور یهاں پهلے پہلے استاد تھے جی ماسٹر شکردین صاحب ،
یه وہی ماسٹر شکرین صاحب هیں جنہوں کی ٹینٹ کی دوکان هے اڈے پر اور سارے گاؤں کے لوگوں کو شناختی کارڈ کے فارم پر کرکے دیتے هیں ـ
جهاں اب مساٹر شکردین صاحب کی دوکان ہے یہاں ہمارے بچپن میں بھو دوکان تو تھی لیکن اب یاد نهیں هے که کیا تھی اس کے بعد سائیکلوں والے کی دوکان تھی جو بعد میں صابر کی دولان بن گئی ،
ساتھ میں موچیوں اور بٹوں کی دوکانں تھیں ان کے پیچھے بیری والے جٹوں کا موٹر ٹیوب ویل تھا جس کا کھال دوکانوں کے سامنے سے بہتا هوا حیات پٹواری کے مکان کے سامنے سے گزرتا هوا بیری والیوں کے کھیتوں کو سیراب کرتا تھا
یهاں گاؤں کے عورتیں کپڑے دھونے بھی جاتی تھیں
اور لوگ گرمیوں میں یہیں بھینسوں کو نہلاتے تھے اور خود بھی نہاتے تھے،
موٹروں کے تسلسل میں ایک میٹر پیپل والی هوتی تھی ، جو که رفیق پٹواری کے مکان کے جنوب میں هوتی تھی
اس وقت تک رفیق پٹواری کا مکان یہاں نهیں تھا،
ان کا مکان بہت بعد میں یہاں بنا ـ
سارے گاؤں سے جو دو تین لڑکے سکول نهین جاتے تھے ان میں ایک تو خالو کمہار تھا جو بعد میں کھالو جلیبیاں والا کے نام سے مشہور هوا
اور دوسرا تھا جی سائیں سلوکی
سائیں سلوکو جولاہوں کا لڑکا تھا
جو که ایک سلوکا سا پہنے سکول کے هی گرد گھوما کرتا تھا ، کیوں که ان کے گھر سکول اور گاؤں کے درمیان پڑنے والے چھپڑ کے پاس هی تھے اور ان کی بھنیس برگد کے نیچے بندھی هوتی تھی اس لیے
ماسٹز حنیف صاحب باورے والے نئے نئے تلونڈی کے سکول میں لگے تھے که ان کو معلوم نهیں تھا که یه لڑکا سکول نهیں پڑھتا
اس لیے انہوں نے اس کو اوارھ پھرتے هوئے دیکھ کر اواز دی
اؤے ادھر اؤ
لیکن سائیں سلوکی نے سنی ان سنی کردی
جس پر ماسٹر حنیف صاحب نے دوبارھ اواز دی
اؤے سلوکی
اس پر سب کلاس والوں کے ہاسے نکل گئے
اس دن سے ان کو پڑوسیوں نے اس کو سائیں سلوکی کہنا شروع کردیا
سائیں اس لیے که ان دنوں قبرستان کے متولی سارے یہیں هوتے تھے اور سب کو سائیں هی کہ کر پکارا جاتا تھا
جن میں سائیں غفور اور سائیں بوٹا مشہور هیں سائیں بوٹا حالانکه جاٹ چیموں میں سے تھا لیکن زمینیں ختم هونے کے قریب کی وجہ سے بس جی سائیں جی هی تھا
سائیں بوٹا کالے رنگ کا لمبا چوغہ پہنتا تھا
اور پیر بهاول شیر کے میلے پر اس کی پکی هوئی کلیجی اور پھیپھڑا بڑا مزے دار هوتا تھا
مجھے یاد ہے که سائیں بوٹا بابے امام دین والد سیٹھ اسحاق
کے گھر کے ساتھ هی ایک میدان سا تھا جس پر مغرب کی طرف جائیں تو بائیں ہاتھ پر پیر بہاول شیر کی چوکھڈی هوتی تھی ، اس سے پہلے ایک درخت کے نیچے مٹی کی ھانڈی میں کلیجی اور پھیپھڑا بیچتا هوا سائیں بوٹا مجھے اج بھی یاد هے
سائیں سلوکی جس کا اصلی نام کچھ اور تھا لیكن زمانے نے اس کو سائیں سلوکی هی کے نام سے یاد ركھا ہے
یه سائیں سلوکی سکول ناں پڑھتے هوئے بھی
همارے ساتھ هی سکول کی سرگرمیوں میں شامل سا هوتا تھا
که تفریح کا وقت هو یا ماسٹر جی کی غیر حاضری یا پھر ایسے هی جماعت کے پاس آ کر کھڑا هوجانا
ان دنوں تحصیل ڈسکه ضلع سیالکوٹ کا ایک بندھ جو که سیکھم کے نزدیک گاؤں گماناں کا تھا
ایک بنپو سا لے کر دانتوں کا علاج کیا کرتا تھا
اس بنپو پر یه اعلان کیا کرتا تھا که دانت نکلوا لو یا دوائی لے لو
یه بندھ جولاہوں کے مکانوں کے قریب کہیں شفٹ هو گیا ، تھوڑے هی دن یهاں رھ کر پھر کہیں اور چلا گیا تھاـ
مجھے اچھے طرح یاد ہے که ایک بندھ اس دانتوں کی پھیری والے کو تلاش کرتے هوئے یہاں آیا جس کے ساتھ اس کی بیوی تھی غالباً
اور اس نے هم سے پچھا که یهاں دانت نکالنے والے کا گھر کہاں هے
اس وقت وهاں ميں اور لاڈو جولاھا اور اصغر جولاها تھے قریب هی سائیں سلوکی بھی پھر رها تھا
سائیں سلوکی فوراً وهاں آکیا که کس کا پوچھ رهے هو؟
جب سائیں کو بات بتائی تو اس نے بجائے دانتوں کے پھیری والے کا گھر بتانے کے ، کہنے لگا مجھے دانت دیکھاؤ
اب جی وھ دانت پہلے هی ریشے کی وجه سے نرم هو چکا تھا
تو جی سائیں سلوکی نے انگلی ڈال کر زور زور سے جھٹکے دئیے اور دانت نکال کر اس کے هاتھ میں پکڑا دیا
هم نے اس کو اس بات پر دادا دنی شروع کردی
اس داد دینے میں
اصغر جولاھ سب سے اگے تھا
اب سنا ہے که سائیں سلوکی
سائیں سلوک بن چکا ہے اور دانتوں کو زنبور کی بجائے هاتھ سے نکالنے کا ماهر سمجھا جاتا هے
برگد کے درخت هوا کرتے تھے جی
ایک تو تھا کمہاروں کا کمہاروں کی مسجد ، جس کو موتی مسجد کہتتے هیں کے تھوڑا هی شمال کی طرف
یهاں سارے کمہار بیٹھے حقه پیا کرتے تھے
ایک تھا مرزائیں کی مسجد اور مولوی غلام نبی کے گھر کے درمیان
ایک برگد مغربی محلے میں بیر والی مسجد میں بھی هوا کرتا تھا
بیر والی مسجد میں کنواں هوا کرتا تھا
میری سنبھال ميں یه کسی مسجد کا اخری کنواں تھا
یا پھر کمہاروں کا کنواں هوا کرتا تھا
مسجد کے سامنے
یهاں غسل خانه بنا هوا تھا اور پانی کے نکاس کا بہترین نظام تھا
اینٹوں کا ایک چبوترھ تھا جو که ڈھلان بنا کے نالی میں ڈال ڈیا گیا تھا
باقی فیر
1 comment for “تلونڈی کی ہسٹری خاور کی زبانی”