خاور کی باتیں تاریخ نما دوسری قسط

خاور کھوکھر

دوسری قسط

ایک چرخی کے ساتھ بالٹی باندہ کر پانی نکالتے تھے

جس کو غسل خانے کی پانی والی اونچی جگہ ڈال لیتے تھے

بچپن میں یہ غسل خانہ بڑا صاف ستھرا ہوا کرتا تھا

یہاں کے صاف پانی کی مہک اج بھی میری سانسوں میں بسی ہوئی ہے

پھر اہستہ اہستہ کائی جمتی گئی اور کچھ سڑکے اونچے ہونے کی وجہ سے یہاں گند سا بننے لگا

ایک عجیب سا ماھول بن گیا ہے پاکستان میں کہ حکومت سڑک اونچی کرتی ہے اور لوگ مکان

اسی مقابلے میں سارا ملک گند سا بنتا جارہا ہے

اسی کنوئیں میں منڈہیڑ سے کشھ نیچے ایک سنگ مر مر کی تختی لگی ہوتی تھی

جس پر کیا لکھا تھا ؟؟

کسی کو یاد نہیں

اور کھوئی ہے کہ مٹا دی گئی

ہوا یہ کہ رشید رحمانی جو کہ میرے ماموں بھی ہیں

میرے چھوٹے بھائی غلام مرتضے عرف حاجی ننھا کے سسر ، انہوں نے جوانی میں ایک دفعہ اس کھوئی کو صاف کرنے کا بیڑا اٹھایا

کہ

اس بہانے کھوئی کا ہی صفایا کردیا

اور اب اس پر دوکانیں ہیں کہ جن کا کرایہ

میاں اللہ رکھا صاھب کو جاتا ہے

اس لیے جن کو اس کھوئی کے صفایا کردئے جانے کے خلاف اواز اٹھانی تھی ان کو

کرائے کا لالچ ڈال دیا گیا

ہاں میری خواہش ہے کہ اللہ توفیق دے تو میں اس کھوئی کو اپنے خرچے سے بحال کروں

کمہاروں کے قبرستان مین موجود برگد کا درخت

بابے علم دین نے لگایا تھا

اور سارا دن جانور لے کراسی کے گرد گھوما کرتا تھا

اس کے خرد ایٹیں اور روڑے جوڑ کر اس کا ننھا سا چبوترا بناتا رہتا تھا

اگر لڑکے کھیل کے دوران نادنستگی سے بھی اس ننھے برگد کے قرب چلے جاتے تھے تو

بابا علم دین ان کو مارنے کو دوڑتا تھا

سب لڑکے بابے سے ڈرتےتھے

میں نے ایک دن بابے سے کہا کہ

بابا جی اتنا بھی غصہ کیا کہ

جان کھانی کی ہوئی ہے؟

تو بابے نے مجھے کہ

آ میرے پاس بیٹھ میں تجھے کچھ نصیحت کرنا چاہتا ہوں

بابے علم دین نے کہا

سن تیرا دادا محمد اسماعیل اپنے چاروں بھائیوں ابراہیم ، عمر دین اور محمد حسین میں بڑا ہے

اور پھر تیرا باپ محمد صادق بھی چار بھائیوں مین سے بڑا ہے

اور تم بھی اپنے بھائیوں میں بڑے ہو

اس کا مطلب یہ ہے کہ انے والے سالوں میں تم برادری کے بڑوں میں سے ایک ہو گے

اس لئے

پتر

یہ برگد تمہارا ہے

ناں کہ میرا

میں اور بڑا بھی جیا تو دس برس نہیں جیوں گا

اور یاد رکھا پتر برگد ایک سو سال مین جوان ہوتا ہے

اور یہ ننھا سا برگد جو میں نے لگایا ہے اس کی حفاظت کرنا کہ اس کی جوانی تم بھی نہیں تمہارے بیٹے دیکھیں گے

ابجب کبھی مجھے وه بات یاد اتی هے تو ميں بابے علم دین کا مشکور هوتا هوں که اس کی انے والی نسلوں کے لیے فکر کی سوچ نے کمہاروں کو ایک برگد کا تحفہ دیا

کمہاروں کے قبرستان میں سوانجلے کے درخت ہوا کرتے تھے

حالانکہ لوگ اس سوانجلے کو پودے کی عمر میں ہی توڑ لیتے ہیں کہ اس کی جڑ

جس کو سوانجلے کی مولی کہتے ہیں

اس کا اچار ڈالا جاتا ہے

 

ہمارےگھر میں سوانجلے کی مولی کو کاٹ کر تیل میں تڑک کراس پر نمک مرچ لگا کر روٹی سے کھایا جاتا تھا

کمہاروں کے قبرستان کے سامنے آوا ہوا کرتا تھا

اآوی کہتے ہیں پنجابی میں کمہار کی بھٹی کو جس میں برتن پکائے جاتے ہیں

اور آوا اس کی بڑی شکل کو جس میں کہ اینٹیں پکائی جاتی تھیں

بعد میں اینٹیں پکانے والی جگہ کو بھٹہ کہا جانے لگا

زمینوں کی اشتعمال میں یہ جگہ چوہدری اقبال چیمہ کو مل گئی

جس نے یہان مچھلی فارم بنوایا

مجھے یاد ہے کہ اس فارم کو بنانے والے تھیکیدار کا دس راست تھا لالی بروالا

لای کا اصلی نام مجھے یاد نہیں رہا

لیکن یہ شخصیت یاد ہے

ہر وقت خوش رہنے والا لالی بڑا ہی پیار کرنے ولا بندا ہوا کرتا تھا

لالہ کا گھر حیات پٹواری کے گھر کے پیچھے ہوا کرتا تھا

اور

شاید اب بھی اس کی اولاد یہیں بسی ہے

لالی کا ایک بھائی صادق ہوا کرتا تھا

جو کہ اڈے پر حجام کا کام کرتا تھا

اڈے پر گھمنوں کے گھر کی جنوبی دیوار کے سائے میں

ہم لوگ اس زمانے کے رواج کے مطابق ان کو چاچا صادق کہا کرتے تھے

چاچے صادق کے دو بیٹے اس کا ہاتھ بٹیا کرتے تھے جن میں سے ایک کو سائیں کہا کرتے تھے

جب سائیں نے کام سیکھنا شروع کیا تو بڑے لطیفے سے ہوا کرتے تھے

سائیں بڑا ہی سائیں لوک سا بندہ تھا

اور اس کو یہ بات گھول کر پلادی گئی تھی کہ ہر کسی کے ساتھ بہت ہی عزت سے پیش آنا ہے

ایک دفعه کا ذکر هے که ایک مسافر اس کے پاس داڑهی منڈوانے کے لیے بیٹھ گیا

اچھی طرح صابن لگانے کے باوجود

سائیں کے استرے نے کام دیکھایا که اس مسافر کا چہرھ چرکے لگا امرود نظر انے لگا

مسافر نے جاں چھڑوانے کے لیے اٹھنا چاها تو سائیں نے استر اس کے نرخرے کے پاس کیا

اور کهنے لگا

هم اپ کے فرمانبردار غلام هیں جی

همیں خدمت کا موقع دیں

هم اپ کے بچوں کے بھی نوکر هیں جی ـ

اج بھی جب یه بات یاد اتی ہے تو لبوں پر هنسی گزر جاتی هے

اایک دفعه هم نے چاچا جی سے ضد کی که مچھلیاں پکڑنے جانا ہے

ان دنوں لڑکوں کے ہائی سکول کے پاس ایک جوہڑ هوتا تھاجنوبی طرف جس ميں بوٹی هوا کرتی تھی

اور ایک چھپڑ تھا مشرقی طرف ، جهاں اب مکان بن گئے هیں

هسپتال کی شمال مشرقی طرف کی بات کررها هوں

یهاںلڑکے کانٹے کے ساتھ مچھلیاں پکڑتے تھے

ان مين سے باورے والے لوہاروں کا لڑکا شبیر اور سندھی کمهاروں کا لڑکا ارشد یاد اتا ہے

لیکن همارے گھر ميں یهاں مچھلیان پکڑنے پر پابندی تھی

اور هم یه پابندی توڑ بھی نهیں سکتے تھے که همارے گھر نزدیک تھے اور سارے چاچو اور ماموں کی نظر هم ہر هوتی تھی ـ

لیکن مچھلان پکڑنے کے شوق ميں هم نے دادے سے ضد کی تو دادا جی مان گئے که مچھلیاں پکڑنے جاتے هیں لیکن

یهاں اس جوہڑ پر نهیں جهاں ميں کہوں گا

هم مان گئے

میں ، بھائی ننھا. بھائی بلھا اور بھائی عطاء الله کو ساتھ لے کر چاچا جی سڑگ پر مشرق کی طرف چل پڑے هم نے بالٹیاں اٹھائی هوئی تھیں

باسی والا موڑ سے کچھ پہلے سڑک کے جنوبی کنارے سے کچھ ہٹ کر جگہ تھی جس کا نام ہوتا تھا چنبے والا کھوہ

ہو سکتا ہو کہ کبھی یہاں کنواں رہا ہو لیکن جب ہم نے ہوش سنبھالا تو یہاں موٹر تھی

یعنی کہ الیکٹرک موٹر سے چلنے والا ٹیوب ویل

ٹیوب ویل کے کھال میں پانی کھڑا تھا

ہو گا کوئی چار سکوایر میٹر کی جگہ

چاچا جی نے ہم بھائیوں سے کہا کہ کچھے پہن لو یہاں سے مچھلیان پکڑنی ہیں

میں تو ہتھے سے اکھڑ کیا کہ کیا بچوں کو بھلانے کا طریقہ ہے کہ چند سو لیٹر پانی میں کھیل کود کر گھر چلیں گے کہ مچھلیاں پکڑنے گئے تھے

لیکن دوسرے بھایئوں نے کچھے پہنے اور دادے کے ساتھ پانی میں اتر گئے

چاچا جی نے کہا کہ اس پانی کو بالٹی سے باہر پھینکنا شروع کر

بادل نخواستہ میں بھی شامل ہو گیا

تھوڑی ہی دیر بعد مچھلیاں نظر انے لگیں

اس دن یہاں سے پہ ہم کوئی دو بالٹیاں مچھلیان پکڑ کر لائے تھے

ہم بھائی اج بھی جب اس بات کو یاد کرتے ہیں تو ھیرانی ہوتی ہے کہ اتنی تھوڑی جگہ سے اتنی زیادہ مچھلیان اور چاچا جی کو کیسے بتہ تھا کہ وہاں مچھلیاں ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.