باتیں جب جب جهاں جهاں سے یاد اتی رهیں کی لکھتا رهوں گا
چنبے والے کھوه سے مچھلیاں هی نهیں بہت سی باتیں هیں جن کی یاد تو دادا جی سے جڑی ہے لیکن
وه هماری روایت ، تکنیک اور کلچر تھا جو که اک بری طرح سے ختم هی هوتا چلا جارها هے
ایک دفعه کا ذکر هے که میں عطاألله اور بلھا ننھا سوئے (وه چھوٹی سی نہر جو تلونڈی کے مغرب سے گزرتی هے ) پر نهانے کے لیے گئے جس بات کی که ابا جی کی طرف سےبہت که شدید قسم کی پابندی تھی
جب واپس آئے تو اباجی کو سوالوں کے جواب میں آئیں بائں شائیں کرنے لگو که چاچا جی وهاں آ گئے که کیا بات ہے
جب سارا ماجرا سنا تو
کها که زرا پانچیے اٹھا کر دیکھاؤ
همارے ٹخنے دیکھتے هی کهنے لگے که تم لوگ سوئے پر گئے تھے
اسی سپهر کو میں نے پوچھا کهیه کیا تکنیک هے تو انهوں نے بتایا که
سوئے کے ریت بھرے پانی سے ایک هلکی سی ریت کی تہـ ٹخنوں پر بن جاتی هے
جس سے معلوم هو جاتا هے
تو جی اگلے دن هم نے واپس اتے هوئے
چئنے والے کھوه سے جهاں اس وقت تک موٹر ٹیوب ویل لگ چکا تھا وهاں سے پاؤں دھو کر واپس آگئے تو بھی چاچا جی نے پہچان لیا که تم لوگ موٹر سے پاؤں دھو کر آئے هو
تفصیل اس تکنیک کی پوچھی جب هم نے بهت سی مار کھانے کے بعد
تو بتایا کيا که جهاں تک موٹر کے صاف پانی سے دھویا گیا تھا
اس کے اوپر ریت اسی طرح جمی تھی اور صرف پاؤں هی صاف تھے
تو جی بعد مين یه بھی بتایا گیا که اگر چه که تم سارے هی موٹر سے نها کر آ جاؤ
پہچانے جاؤ گے که انکھوں کی لالی بتا دے گی که
صاف پانی سے نهانے سے وه لالی نهیں بنتی هے
علامه صاحب جو که جو که تلونڈی ڈاٹ نیٹ کے چیف ایڈیٹر هیں
دھلے کے سکول میں پڑھا کرتے تھے
انیس سو اناسی میں جب هم نویں جماعت میں تھے تو علامه صاحب همارے ساتھ هی گورنمنٹ هائی سکول تلونڈی موسے
خاں میں آ گئےاس سے پہلے علامه صاحب دھلے گوجرانواله کے سکول جایا کرتے تھے
اس وقت تک علامه صاحب علامه نهیں بنے تھے صرف
افتخار احمد هوا کرتے تھے
ان دنوں همارے کلاس فیلو بھٹی بھنگو سے بھی هوتے تھے که ابھی وهاں هائی سکول نهیں بنا تھا
اس وقت تک ابھی بھٹی بھنگو تحصیل ڈسکه ضلع سیالکوٹ میں هوا کرتا تھا
بڑے هی پیارے پیارے سے لوگ تھے جی ان دنوں همارے کلاس فیلو
نومی ، انور ، سائیمین ، رانا ممتازمبارک اور
شیخ الرجاده سے هو تے تھے
ذولفقار اور مقصود
یه دونوں چچا ذاد بھائی تھے
جاٹوں کی بٹر گوت کے
اور ان دنوں جب که هم میٹرک کے طالب علم تھے یه دونوں بھائی سکول کے سب سے خوش لباس لڑکے هوتے تھے
اب جب جی علامه صاحب سکول میں ہمارے ساتھ آئے تو ان کے گھر کا ماحول کیوں که زیادھ هی علمی سا تھا
مجھے یاد هے که ان کے داد جی کو اخبار پڑھتے دیکھ کر ميں بڑا حیران هوا تھا که همارے دادا جی صرف قران هی پڑھ سکتے تھے اس لیے میں سمجھتا تھا که اس عمر کے سارے هی لوگ صرف ناظره قران هی پڑھ سکتے هیں
لیکن علامه صاحب کے دادا جی بھی اپنے دور کے مطابق تعلیم یافته تھے اور ان کے والد ملک عظیم صاحب بھی تعلیم کے شعبے سے منسلک تھے
تو جی علامه صاحب کو شعر تو اتنے هی یاد تھے جتنے که اس زمانےکے میٹرک کے طالب علموں ميں سے خاصے لڑکوں کو یاد هوتے تھے لیکن
جی موقع کا شعر کہنے میں علامه صاحب کو کمال حاصل تھا جی
اتنے شعر سناتے تھے که جی
هر لڑکے کو احساس هوتا تھا که علامه صاحب کو شعر بهت یاد هیں
اس بات سے متاثر هو کر
سب سے پہلے ان کو علامه کهـ کر جس بندے نے مخاطب کیا تھا مجھے یاد ہے که وھ شیخ رجادے والے دونوں بھائی تھے
مقصود اور ذولفقار
اور پھر سبھی ان کو علامه صاحب کهنے لگے که
اب تلونڈی کی ابادی کی ایک اکثریت کو ان کا نام بھی معلوم نهیں هے
علامہ صاحب کے گھر کا ماحول اج بھی تلونڈی کی ایک بڑی اکثریت کے مقابلے میں علمی ہے
ابھی بھٹی بھنگو والی سڑک نہیں بنی تھی
بھٹی بھنگو سے گوجرانولہ کے لیے ٹانگے چلا کرتے تھے
جو کہ بیری والئے جٹوں کے گھر کے سامنے سے کزرا کرتے تھے
نان کہ اب والی سڑک سے جو کہ روشن شاہ کی قبر کے پاس سے گزرتی ہے
روشن شاھ ولی کی قبر اور گھمنوں کے گھروں کے درمیان ایک ناله سا گزرتا تھا جس کے دونوں اطراف گل بانسی کی جھاڑیاں اگی هوتی تھیں
جهان محلے بھر کی بطخیں تیرتی رهتیں تھیں
شاھ ولی کی قبر کے پاس اب جهاں مسجد هے یهاں
قاضی نامی ایک قصاب کا بارھ هوتا تھا
جو که بڑا گوشت کیا کرتا تھا
مجھے یاد ہو که ان دنوں سارے قصائی هماری دوکانوں کے پاس بازار میں پھٹے لگایا کرتے تھے
جهاں ان کا گوشت کئی کئی دن نهیں بکا کرتا تھا
اور بڑا گوشت تو جی ضرور دو دن لے جاتا تھا
که سستا هونے کے باوجود!ـ
پھر چوھدری نواز چیمه جو که ذیلدار خاندان کے تھے انهوں نے قصائیوں کے پھٹے اٹھوا دیے تھے
یه جگه جهان اب مسجد هے
یه جگه چوھدری پرویز چیمه نے قصائیوں سے کیسے حاصل کی مجھے یاد نهیں غالباً یه جگه تھی هی خانقاه کی تھی جس کو قصائی استعمال کیا کرتے تھے
چوھدری پرویز چیمه ایک زرخیز ذہن کا مالک بنده ہے جس نے اپنے زمانه طالب علمی میں اسکول ميں کئی ڈرامے بھی اسٹیچ کروائے
جن ميں سے ایک ڈرامه
شکرا بدمعاش مجھے اب بھی یاد هے
اس ڈارمے میں شمولیت کے لیے انے والے فنکاروں مين سے ایک فنکار منه سے ایسا موزرک بجاتا تھا که جیسے لکڑی کا الٹا پیالا لکڑی گے پھٹے پر مارا جائے تو آواز پیدا هوتی هے
یا کہ لیں که گھوڑے کے سموں کی اواز جیسی که کولتار کی سڑک پر پیدا هوتی ہے
تو جی ان چوھدری پرویز صاحب نے روشن شاه کی قبر کو جو که ایک ویران سے خانقاه هوتی تھی کو ایک درگاه ميں بدل دیا
اور یهاں مسجد اور چاردیواری بنوا کر یهاں میلا روشن شاه ولی کی بنیاد رکھی
دو تین سال یه میلا چوھدری پرویز اور اس کے ساتھ شامل محلے کے دوسرے سماجی کارکنوں کے زیر انتظام چلا
اور پھر
اس خانقاه کا انتظام
ایک لڑائی کے بعد
ککڑاں والیے چیمه چوھدریوں کے پاس چلا گیا
اس لڑائی گے دوران هونے والے سارے واقعات کا میں شاهد هوں شاهد هوں لیکن
یه باتیں
ناقابل تحریر هیں
1 comment for “خاور کی یادیں تلویڈی کی تاریخ”