چند برس پہلے کی بات ہے، اس وقت میرے بڑے بھائی آئ- ٹین – اسلام آباد میں رہایش پزیر تھے . مجھے کسی کام کے سلسلے میں انکے پاس جانے کا اتفاق ہوا . رات ایک بجے کے قریب مجھے کوچ والوں نے فیض آباد سٹاپ راولپنڈی اتارا. میں وہاں قریب کھڑی ایک ٹیکسی کی طرف بڑھا ، ٹیکسی ڈرائیور کو میں نے اپنے مطلوبہ پتے کا بتا کر اسے کرایہ پوچھا ، تو اس نے مجھے ایک سو پچاس روپے بتایا ، چونکہ دن کے وقت ان دنوں ٹیکسی والے ساٹھ یا ستر روپے لیتے تھے ، لہذا میں نے اس سے بارگین شروع کر دی ، اور اسے اسی روپے کی آفر کی اور ساتھ یہ بھی کہ دیا کہ اگر وہ اپنے پیسے زیادہ بنانا چاہتا ہے تو اور سواریاں بٹھا لے ، مجھے کوئی اعتراض نہیں. یہ بات اس کے دل کو لگی ، تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے آواز دی، میں اسکے پاس گیا تو اس نے مجھے فرنٹ سیٹ پر بٹھا لیا. میرے علم میں نہیں تھا، کہ پچھلی سیٹ پر کوئی بہت بڑے علامہ صاحب اصلی والے بیٹھے ہوے تھے، جنہوں نے حضرت گولڑہ شریف جانا تھا، انکے پاس شاید پیسے بہت زیادہ تھے، یا انھیں کوئی سیکورٹی کا مسلہ تھا. یہ بات ڈرائیور نے انھیں پہلے نہیں بتائی تھی، کہ وہ کسی اور پر اسرار مسافر کو بٹھانے والا ہے، علامہ اصلی اس ڈرائیور سے الجھ پڑے ،کہ جب تو نے میرے ساتھ پورا کرایا طے کر لیا ہے ، تو پھر اس اجنبی کو کیوں بٹھا رہے ہو، شاید اصلی علامہ صاحب نے مجھے ڈرائیور کا دوست سمجھ لیا ہو، جس نے آگے جا کر علامہ صاحب کو ہینڈز اپ کرانا ہو، میں نے اس پر ان سے معذرت کرتے ہوے کہا کہ حضرت سچی بات یہ ہے کہ نہ تو میرے پاس پیسے زیادہ ہیں، نہ ہی میں کوئی سیاسی ، مذہبی ، سماجی رہنما ہوں، نہ ہی میری کسی سے دشمنی ہے، اور نہ ہی مجھے جان کا خطرہ ، کہ جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی.. حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا . آپ جھگڑا نہ کریں میں گاڑی سے اتر جاتا ہوں ،اور یہ کہ کر میں واقعی گاڑی سے اتر گیا ، لیکن یہ کیا … اصلی علامہ صاحب کے لئے وہ گاڑی ، ڈرائیور اور میں مشکوک ہو چکے تھے، وہ بھی گاڑی سے اتر گۓ، کہ میں اس گاڑی والے کے ساتھ بلکل نہیں جاؤں گا. قارئین اب آپ ہی بتائیں اس میں میرا کیا قصور ؟ قصور تو نور جہاں کا ہے، قصور، قصور والوں کا ہے. اب ڈرائیور کو یہ تکلیف ہوئی، کہ اس آدمی یعنی میری وجھہ سے اسکی زیادہ کمائی والی سواری بھی چلی گئی ، یعنی اسکی نظر میں ، میں منحوس تھا…. اور آپ جانتے ہیں کہ اس نے اپنا غصہ پھر کیسے نکالا …. جب میں دوسری ٹیکسی کی طرف گیا ، تو مذکورہ پھا پا اس ڈرائیور کو پنڈی وال لہجے میں بولا ، اسے نہ بٹھانا ، یھاں تک کہ میں جہاں بھی جس ٹیکسی والے کے پاس جاتا ، وہ پیچھے پنہچ جاتا اور اسے مجھے بٹھانے سے روکتا رہا… اس نے یہ کام بڑی فکر مندی سے کیا .. اور یہ نہیں سوچا کہ اسے اپنے لئے نیا رزق تلاش کرنا چاہیے. میں بڑی تشویش میں مبتلا تھا.. ادھر سفر کی تھکاوٹ اور نیند نے بھی پریشان کر رکھا تھا. میں نے سوچا اس سڑک کو ہی چھوڑ دیتا ہوں ، میں مخالف سڑک کی طرف بڑھا، ایک ٹیکسی رکی ، میں جلدی سے اس کی طرف بڑھا ، اس سے کرایہ طے کیا ، اس نے مجھے بٹھا لیا، پہلے والا ڈرائیور آپ یقین کریں سڑک پار کرتے ہوا دوڑا … وہ اس ٹیکسی والے کو بھی مجھے بٹھانے سے روکنے کے لئے اس کو آوازیں دے رہا تھا ،.. تساں اساں نہ بٹھانا … کہ ایک تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر شدید زخمی ہو گیا .. .. جب کہ اس ٹیکسی والے نے اسے گالی دیتے ہوے گاڑی تیز چلا دی .. اور کہنے لگا .. اساں نا علاج ایے .. ایے میرے رزق د ٹھیکیدار لگنا اے .. اے میرا ماما لگنا اے کہ حس دے کہون طے میں تساں کی لا چھوڑان …