قارئین کرام ! تلونڈی موسیٰ خان کے پرائمری سکول باغ میں تین چا ر کلاسیں پڑھنے کے بعد میرے والد مرحوم جو کہ اس وقت گورنمنٹ سکول دھلے میں ٹیچر تھے ، نے مجھے وہیں دھلے سکول میں داخل کرا دیا. میرے بڑے بھائی پہلے ہی اس سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے . ہمیں روزانہ فجر کی نماز سے پہلے جگایا جاتا تھا ، نماز باجماعت پڑھ کر گھر واپس آتے تو والد مرحوم ہی ہمیں قران مجید پڑھاتے، پھر جلدی جلدی سے ناشتہ ہوتا ، اس وقت والد صاحب نے گھر میں بھیینس پال رکھی تھی. لسی ،مکھن ،پراٹھا ہمارے ناشتے کا حصہ تھا ، جو مجھے کبھی اچھا نہیں لگتا تھا، لیکن گوجرانوالہ لاری اڈہ کے ہوٹلوں کے چنوں کی مہک دماغ کو مسحور کرتی تھی. دراصل جو چیز پاس ہوتی ہے اسکی قدر نہیں ہوتی ، والدین بڑا سمجھاتے کہ ہوٹلوں کا گھی ناقص ہوتا ہے ،پر انکی بات اچھی نہیں لگتی تھی. تلونڈی اڈے پر بری رونق ہوا کرتی تھی، چاچا سراج نائی مرحوم کی چھوٹی سی دکان، جہاں بیٹھا وہ لوگوں کی شیو کرتا ، جب کوئی بس سٹاپ پر رکتی تو اسکا دھیان کہیں اور چلا جاتا ، وہ بگے فروٹ والے کو آواز دے کر کہتا او بگیا گڈی ول ویکھ ، اور پھر ساتھ ہی جب شیو کرنے والے کی طرف دیکھتا ،تو سفید جھاگ میں سرخ خون چل رہا ہوتا ، جسے وہ صدیوں سے پڑے ہوے پھٹکری کے ٹکڑے سے صاف کرتا اور کہتا اچھا ہوا گندہ خون نکلا ہے….. چاچا سراج ختنوں کے لئے جو لکڑی کی چمٹی استعال کرتا تھا ، وہ بھی بہت پرانی تھی ، اور اس پر بھی خون جما ہوتا تھا، یعنی یہ بات یقینی ہے کہ اس نے اپنے اوزاروں کو کبھی دھونے کی زحمت نہ کی… اور میرے اندازے میں جس استرے اور لکڑی کی چمٹی سے میرے ختنے ہوے …میرے سب سے چھوٹے بھائی جو مجھ سے پندرہ برس چھوٹا ہے… کے بھی انہی اوزاروں کے ساتھ .. مگر قارئین اس وقت کوئی ہیپاتیٹس نہیں ہوتا تھا… مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بس پسرور سے ہی بھری آتی تھی، اور جب وہ تلونڈی پہنچتی تو اسکی چھت بھی لدی ہوتی ، وہ صبح کے وقت کم کم ہی رکتی تھی .. پھر میں دیکھتا ، کہ چوہدری اخلاق چیمہ بیری والیے، اقبال مہار مرحوم اور ایک دو اور جوان لڑکے ، ڈاکٹراصغر مرحوم ، ڈاکٹر اکرم کے والد چاچا جی فضل کریم کے آرے سے ایک بڑی لکڑی اٹھا کر سڑک کے وسط میں رکھ دیتے … پھر بس رکتی اور ہم دوڑتے دوڑتے بس کی کھڑکی ، سیڑھی ، چھت جہاں پاؤں ٹکتا..سما جاتے.
جاری ہے
2 comments for “یک یادگار پھینٹی جو سدا یاد رہے گی ، علامہ افتخار کے لڑکپن کی ایک کتھا”