قصہ یوں ہے کہ ایک دن سکول کی ہی بات ہے ، بڑے بھائی عبدالستار طارق صاحب جو آجکل ایک فرانسیسی کمپنی سعودیہ میں پراجیکٹ ڈائرکٹر ہیں، نے مجھے کہا کہ آج ابا جان کے ساتھ گھر واپس نہ جانا ،میں ٹیوشن پڑھ کر آؤں گا، تو دونوں بھائی اکھٹے گھر چلے جایئں گے . والد مرحوم مجھے چھٹی کے وقت کہنے لگے کہ چلو افتخار گھر چلیں ، میں نے انھیں عرض کیا کہ ابا جان بھائی کہتا تھا کہ ہم دونوں اکھٹے گھر چلے جایئں گے میرا انتظار کرنا ،والد صاحب نے فرمایا چلو ٹھیک ہے ! اب ہوا یہ کہ سب سے پہلے میں نے اپنی بھوک مٹانے کے لئے اپنے چار آنے کی میٹھی دال خرید کر کھا لی.. اور بعد ازاں بستے کو سکول کی گراونڈ میں ایک طرف رکه کر آسمان کی طرف دیکھنا شروع ہوگیا ، جو رات کے جگمگاتے تاروں کی طرح پتنگوں سے بھرا ہوا تھا… میں اپنی چپل اتار کر پتنگیں لوٹنے میں مشغول ہوگیا …. میں اس وقت دنیا و مافیہا سے ٹھیک اسی طرح بے خبر ہو کر پتنگیں لوٹتا رہا … جسطرح گزشتہ پچاس سالوں سے ہمارے حکمران اپنے ہی ملک اور اپنے ہی گھر کو لوٹنے میں مصروف ہیں … میرے بھائی بھی کسی اور رستے سے اپنی بات بھول کر گھر چلے گۓ. میرے کئی ہم جماعت بھی اپنے گھروں سے کھانا کھا کر اور بستے چھوڑ کر سکول گراونڈ میں واپس آ چکے تھے … وہ بھی پتنگیں لوٹنے کے عمل میں میرا بھر پور ساتھ دینے لگے … چونکہ میں ایک ٹیچر سن تھا .. اور وہ گویا میرا ساتھ دینے کو اپنا فرض سمجھ کر کرتے رہے یہاں تک کہ غروب آفتاب کا منظر بھی دیکھنے میں آگیا .. اور پھر میری تشویش بڑھ گئی کہ بھائی ابھی تک ٹیوشن سے واپس کیوں نہیں آے… پھر دوستوں نے کہا چلو ماسٹر ملک مشتاق صاحب کے گھر سے پتہ کرتے ہیں… ہم نے جب انکا دروازہ کھٹکھٹایا .. تو یہ بات سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے کہ میرے بھائی تو یہاں سے کئی گھنٹے پہلے واپس جا چکے ہیں … … ٹیلیفون بھی اس زمانے میں ہمارے گھروں میں نہیں تھا . کئی دوستوں نے مجھے اپنے گھروں میں رہنے کی آفر کردی… مگر میں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ میری والدہ مجھے گھر میں نہ پاکر صدمے سے نڈھال ہوجائیں گی، بس دوستو تم ایسا کرو کہ مجھے دس پیسے کل تک ادھار دو اور مجھے لاری اڈہ ، بس پر بیٹھا آؤ. … دوسری طرف یہ ہوا کہ مرحوم والد صاحب گھر واپس گۓ ، تو انہوں نے دیکھا کہ بھائی بھی گھر میں موجود ہیں .. والد صاحب نے بھائی سے میرے بارے میں پوچھا کہ افتخار نے تو تمھارے ساتھ آنا تھا.. لیکن والد صاحب چونکہ بڑے سخت اور اصول پرست تھے .. بھائی جان نے ڈرتے ہوے کہا کہ میں نے اسے سکول رکنے کا نہیں کہا ، افتخار کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہوگی .. بس پھر کیا تھا …..والد مرحوم انہی پاؤں سے پریشان پلٹے اور بس پر بیٹھ کر واپس دھلے سکول جانے لگے .. ابھی میں دھلے سکول کے اس گراونڈ سے چپل پہننے ہی والا تھا …کہ میرے کانوں میں میرے والد مرحوم کی آواز بجلی کی طرح گونجی جو اپنے سب سے پہلے ملنے والے شاگرد سے میرے بارے میں پوچھ رہے تھے …. جاری ہے