بہت سال پہلے کی بات ہے که میں گاؤں گیا تھا که
معلوم هو ا
میرے ایک اجھے دوست ملک ذکاء الله بٹ کا چھوٹا بھائی ضیاءلاهور ميں قتل هو گیا هے
قاتل یا قاتلوں نے بڑے هی بہیمانه طریقے سے اینٹیں مار مار کر قتل کیا تھا که میت دیکھ کر خوف اتا تھا
دو دن بعد هی ذکاءءالله نے بتایا که سیف الله جو که ذاکاء الله کا چھوٹا بھائی هے اور ان دنوں ملائشیا محنت مزدوری کے لیے گیا هوا تھا
کهیں ملائیشا سے براسته تھائی وطن واپسی کی کوشش میں بنکاک میں جیل میں هے
میری اگلی منزل جاپان تھی
بھائی ننھےپریشر ککر لانے کا کہا ھا اور جلیبیان بنانے کیے مسالے رنگ کاٹ ٹاٹری وغیره
اور ایک جاپانی ساچو نے پاکستان سے قالین لانے کی فرمائیش کی تھی
میں نے سوچاکه میں براسته بنکاک جاپان چلا جاتا هوں
اور سیف الله کو بھی ملتے چلا جاؤں گا
میں جب بنکاک گیا تو
جیل کا معلوم کرکے ملاقات کے لیے گیا
فارم پر کرکے سیف کے ملاقاتیوں والے جنگلے مين انے تک کے وقت ميں میں نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں
کیلے بسکٹ جوس اور دیگر چیزیں جو که جیل کی کنٹین سے ملیں وه بھی سیف الله کے لیے داخل کرواءدیں اور ایک معقول سی رقم کو که کہ لین که ان دنوں پاکستانی پولیس مین کی ایک ماه کی تنخواه کا نصف تھی بھی سیف کے اکاؤنٹ ميں داخل کروا دی
جب سیف الله جنگلے میں پہنچا تو اسے نهیں معلوم تھا که میں نے کیا کیا اس کے نام پر اندر بھیجا هے
اس لیے جب میں نے استفسار کیا که کسی چیز کی ضرورت تو ہے؟
تو اس نے کہا که
ایک تو پسی هوئی مرچ لے دیں که اندر چاول تو مل جاتے هیں لیکن اکر مرچ هو گی تو پانی میں گھول کر ان پر ڈال کر کھالیا کروں گا
اور اگر هو سکے تو پانچ سو ڈالر کی رقم بھی دے دیں که اس طرح ميں ٹکٹ کٹوا کر جلدی پاکستان جا سکتا هوں
میرے پاس خاصی بڑی رقم موجود تھی
لیکن پتی نهیں کیوں میں بخیلی کا شکار هو گیا که میں نے اس کو کها که مرچ وغیره تو بھیج دیتا هوں لیکن پانچ سو ڈالر مشکل هیں
میں تمهارے بڑے بھائی سے کهتا هوں
مجھے معلوم بھی تھا که ذکاء کے مالی حالات بہت خراب هیں
مجھے چاهیے تھا که ميں پانچ سو ڈالر قربان کر دیتا
لیکن شائد ذکاء کے مالی حالات کے خراب هونے کا علم هونے کی وجه سے مجھے اپنی رقم مرتی هوئی لگی تھی
که
میں بخیلی کر گیا
ایک که دو دن بعد جب ميں ناریتا پہنچا تو
ایمکریشن والوں نے پکڑ لیا که
اس دفعه انٹری نهیں ملے گی
کیوں؟؟
جواب تھا که انسپکٹر کی صوابدید پر!!ـ
یهاں سے فل فئر کی بنکاک تک کی ٹکٹ کوئی ستره سو ڈالر کی بنی
بنکاک ميں کیا کرنا تھا
ميں نے سوچا که اب فرانس چلتے هیں
بنکاک سے فرانس تک کی ٹکٹ
لی اور پیرس چلا گیا ، جن دوستوں سے ملنے کی امید تھی وه نان مل سکے اس لیے بارسلونا کی طرف منه کیا
ایک ماه یهاں ره کر لندن کے لیے ٹرین پر پیرس اور پھر لندن !!ـ
لندن مين چند هفتے رهنے کے بعد کوریا سے ایک جاپانی دوست کا پیغام ملا که یار کوریا هی اجاؤ
ذرا رونق رهے گی
لندن سے بائیٹرین پیرس اور پھر براسته کراچی بنکاک اور بنکاک سے سیول
سیول ميں جب اس جاپانی دوست سو جاپان سے ڈیپورٹ هونے کی بات کی تو اس نے کها
که فارغ بیٹھے هیں کیوں ناں ناریتا چلیں اور ذرا ایمگریشن والوں سے منه ماری کرکے آتے هیں
چلو جی چلو چلتے هیں
لیکن جب ٹکٹوں والے سے پوچھا تو اس نے بتایا که اج کی تاریخ ميں ناریتا کے لیے کوئی سیٹ نهیں هیں
هاں اوساکا کے لیے سیٹ مل سکتی هے
جاپان دوست کہنے لگا
ایک هی بات هے
چلو اوساکا چلتے هیں
که اوسکا کے لوگ زنده دل هوتے هیں ، اس لیے منه ماری کا بھی مزه آئے گا
کچھ جگتیں سنیں گے کچھ کہیں گے اور واپس آ جائیں کے که جو سرخ رنگ کی مهر تمهارے پاسپورٹ پر جاپان ایمگریشن نے لگا دی هے اس کی روشنی میں اب تمهیں جاپان کی انٹری تو ملنی نهیں هے
اوسکا میں ایمگریش کاؤنٹر پر گیا تو انسپکٹر نے فارم دیکھا اور انٹری کی مہر لگانے جارها تھا که جاپانی دوست نے کها
وه مہر تو دیکھو !ـ
هم اس پر بات کرنے آئے هیں
اب جی نیا کٹا کھل گیا
اور ایک لمبی تفتیش
لیکن افسر لوگ هم کو ئی بات نهیں کرنے دے رهے
ایک گھنٹا بعد انٹری کی مهر لگا کر کہتے هیں که جاؤ!!ـ
یه تو مزه نهیں آیا !!ـ
جاپانی دوست نے کها
لیکن چلو
اب تم بھائی کے پاس جاؤ اور میں سیول واپس جاتا هوں
اس وقت تک وه سارا سامان قالین اور جلیبیوں کے مسالے اور پریشر ککر میں ساتھ هی لے کر چل رها تھا
ایک پانچ سو ڈالر سیف الله کو ناں دینے کے بعد اس سامان کو منزل تک پهنچانے پر میرا کوئی پانچ هزار ڈالر خرچ آیا تھالیکن سف الله کا گاؤں ميں رویه کیا هے؟؟
سب کو بتا رها هے که خاور بھائی جان ملاقات کے لیے آئے تھے اور بهت سا سامان اور ایک بڑی رقم بھی دے گئے تھے
لیکن خاور اس کی پوری مدد ناں کرسکنے پر شرمنده ہے
معلوم هو ا
میرے ایک اجھے دوست ملک ذکاء الله بٹ کا چھوٹا بھائی ضیاءلاهور ميں قتل هو گیا هے
قاتل یا قاتلوں نے بڑے هی بہیمانه طریقے سے اینٹیں مار مار کر قتل کیا تھا که میت دیکھ کر خوف اتا تھا
دو دن بعد هی ذکاءءالله نے بتایا که سیف الله جو که ذاکاء الله کا چھوٹا بھائی هے اور ان دنوں ملائشیا محنت مزدوری کے لیے گیا هوا تھا
کهیں ملائیشا سے براسته تھائی وطن واپسی کی کوشش میں بنکاک میں جیل میں هے
میری اگلی منزل جاپان تھی
بھائی ننھےپریشر ککر لانے کا کہا ھا اور جلیبیان بنانے کیے مسالے رنگ کاٹ ٹاٹری وغیره
اور ایک جاپانی ساچو نے پاکستان سے قالین لانے کی فرمائیش کی تھی
میں نے سوچاکه میں براسته بنکاک جاپان چلا جاتا هوں
اور سیف الله کو بھی ملتے چلا جاؤں گا
میں جب بنکاک گیا تو
جیل کا معلوم کرکے ملاقات کے لیے گیا
فارم پر کرکے سیف کے ملاقاتیوں والے جنگلے مين انے تک کے وقت ميں میں نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں
کیلے بسکٹ جوس اور دیگر چیزیں جو که جیل کی کنٹین سے ملیں وه بھی سیف الله کے لیے داخل کرواءدیں اور ایک معقول سی رقم کو که کہ لین که ان دنوں پاکستانی پولیس مین کی ایک ماه کی تنخواه کا نصف تھی بھی سیف کے اکاؤنٹ ميں داخل کروا دی
جب سیف الله جنگلے میں پہنچا تو اسے نهیں معلوم تھا که میں نے کیا کیا اس کے نام پر اندر بھیجا هے
اس لیے جب میں نے استفسار کیا که کسی چیز کی ضرورت تو ہے؟
تو اس نے کہا که
ایک تو پسی هوئی مرچ لے دیں که اندر چاول تو مل جاتے هیں لیکن اکر مرچ هو گی تو پانی میں گھول کر ان پر ڈال کر کھالیا کروں گا
اور اگر هو سکے تو پانچ سو ڈالر کی رقم بھی دے دیں که اس طرح ميں ٹکٹ کٹوا کر جلدی پاکستان جا سکتا هوں
میرے پاس خاصی بڑی رقم موجود تھی
لیکن پتی نهیں کیوں میں بخیلی کا شکار هو گیا که میں نے اس کو کها که مرچ وغیره تو بھیج دیتا هوں لیکن پانچ سو ڈالر مشکل هیں
میں تمهارے بڑے بھائی سے کهتا هوں
مجھے معلوم بھی تھا که ذکاء کے مالی حالات بہت خراب هیں
مجھے چاهیے تھا که ميں پانچ سو ڈالر قربان کر دیتا
لیکن شائد ذکاء کے مالی حالات کے خراب هونے کا علم هونے کی وجه سے مجھے اپنی رقم مرتی هوئی لگی تھی
که
میں بخیلی کر گیا
ایک که دو دن بعد جب ميں ناریتا پہنچا تو
ایمکریشن والوں نے پکڑ لیا که
اس دفعه انٹری نهیں ملے گی
کیوں؟؟
جواب تھا که انسپکٹر کی صوابدید پر!!ـ
یهاں سے فل فئر کی بنکاک تک کی ٹکٹ کوئی ستره سو ڈالر کی بنی
بنکاک ميں کیا کرنا تھا
ميں نے سوچا که اب فرانس چلتے هیں
بنکاک سے فرانس تک کی ٹکٹ
لی اور پیرس چلا گیا ، جن دوستوں سے ملنے کی امید تھی وه نان مل سکے اس لیے بارسلونا کی طرف منه کیا
ایک ماه یهاں ره کر لندن کے لیے ٹرین پر پیرس اور پھر لندن !!ـ
لندن مين چند هفتے رهنے کے بعد کوریا سے ایک جاپانی دوست کا پیغام ملا که یار کوریا هی اجاؤ
ذرا رونق رهے گی
لندن سے بائیٹرین پیرس اور پھر براسته کراچی بنکاک اور بنکاک سے سیول
سیول ميں جب اس جاپانی دوست سو جاپان سے ڈیپورٹ هونے کی بات کی تو اس نے کها
که فارغ بیٹھے هیں کیوں ناں ناریتا چلیں اور ذرا ایمگریشن والوں سے منه ماری کرکے آتے هیں
چلو جی چلو چلتے هیں
لیکن جب ٹکٹوں والے سے پوچھا تو اس نے بتایا که اج کی تاریخ ميں ناریتا کے لیے کوئی سیٹ نهیں هیں
هاں اوساکا کے لیے سیٹ مل سکتی هے
جاپان دوست کہنے لگا
ایک هی بات هے
چلو اوساکا چلتے هیں
که اوسکا کے لوگ زنده دل هوتے هیں ، اس لیے منه ماری کا بھی مزه آئے گا
کچھ جگتیں سنیں گے کچھ کہیں گے اور واپس آ جائیں کے که جو سرخ رنگ کی مهر تمهارے پاسپورٹ پر جاپان ایمگریشن نے لگا دی هے اس کی روشنی میں اب تمهیں جاپان کی انٹری تو ملنی نهیں هے
اوسکا میں ایمگریش کاؤنٹر پر گیا تو انسپکٹر نے فارم دیکھا اور انٹری کی مہر لگانے جارها تھا که جاپانی دوست نے کها
وه مہر تو دیکھو !ـ
هم اس پر بات کرنے آئے هیں
اب جی نیا کٹا کھل گیا
اور ایک لمبی تفتیش
لیکن افسر لوگ هم کو ئی بات نهیں کرنے دے رهے
ایک گھنٹا بعد انٹری کی مهر لگا کر کہتے هیں که جاؤ!!ـ
یه تو مزه نهیں آیا !!ـ
جاپانی دوست نے کها
لیکن چلو
اب تم بھائی کے پاس جاؤ اور میں سیول واپس جاتا هوں
اس وقت تک وه سارا سامان قالین اور جلیبیوں کے مسالے اور پریشر ککر میں ساتھ هی لے کر چل رها تھا
ایک پانچ سو ڈالر سیف الله کو ناں دینے کے بعد اس سامان کو منزل تک پهنچانے پر میرا کوئی پانچ هزار ڈالر خرچ آیا تھالیکن سف الله کا گاؤں ميں رویه کیا هے؟؟
سب کو بتا رها هے که خاور بھائی جان ملاقات کے لیے آئے تھے اور بهت سا سامان اور ایک بڑی رقم بھی دے گئے تھے
لیکن خاور اس کی پوری مدد ناں کرسکنے پر شرمنده ہے
2 comments for “یادیں ، تحریر خاور کھوکھر”