پچھلے ستمبر میں ، میں پاکستان گیا تو دادا جی اور ماں کی قبر پر دعا کرکے
واپسی میں قبرستان کے درمیاں سے گزرنے والی اس قدیم پگڈنڈی پر چل پڑا جس پر گھوڑے شاھ کی خانقاھ ہے
ُپگڈنڈی کے اختتام پر جامن کے درخت ہیں
ہم بچپن میں ان درختوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔
ان جامنوں میں سے جو جوجامن انتہائی مشرق کی طرف ہے اس کے ساتھ ایک یاد جڑی ہوئی ہے کہ یہاں میں وہ گانا سنا تھا
جو کہ ایک دوگانا ہے
گوریئے میں جانا پردیس
وے میں جانا تیرے نال
مجھے نہیں یاد کہ اس وقت میری کیا عمر تھی بس یہ یاد ہے کہ میں انتہائی چھوٹا تھا اور ماموں باؤ ( باؤ مختار) کے ساتھ یہاں گیا تھا۔
دادی نے بتایا تھا کہ وہاں باغ میں کنجری کا گانا ہے
اس جامن کے نیچے پہنچ کر مجھے ایسا لگا کہ میں ایک بچہ ہوں جو مامے باؤ کی انگلی پکڑے کھڑا ہوں اور ابھی یہان گانے کی محفل لگی ہوئی تھی،
یادوں کا سلسلہ کہ ماسٹر اقبال صاحب ہاتھ میں چھڑی پکڑے چلے آ رہے ہیں ۔
اس جامن کے ادرگر اگر کوئی تبدلی ائی تھی تو یہ کہ
زمیں پر ہریالی کی ایک میلی سی طے جمی ہوئی تھی جو کہ میرے بچپن کی یادوں میں نہیں تھی۔
ایسا لگ رہا تھا کہ
ابھی اصغر جولاہا ، لاڈو ، پٹّی ، یوسی لوہار کہیں سے نکل
آئیں گے،
لیکن وہاں میری اس کیفیت سے بے خبر کچھ جوان منڈلی بنائے بیٹھے تھے
اور میری طرف اجنبی سے نظروں سے دیکھ رہے تھے
ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے جانتے بھی ناں ہوں کہ کبھی ہم بھی کہا کرتے تھے کہ
تلونڈی ہمارا گاؤں !!!!۔
علم عقل کی بہت سی باتیں ، جن باتوں نے میری جڑیں ، میری زمین میں بہت گہری کردیں
وہ باتیں میں نے چاچا فرید درزی ( جناب غلام فرید صاحب فرید جنرل سٹور والوں کے ابا جی) کے پاس بیٹھنے والے تلونڈی کے بزرگوں سے سنی ۔
میرے بچپن میں ابا جی حقہ کشید کیا کرتے تھے ، جس حقے کو تازہ کرنا میری ذمہ داری ہوا کرتی تھی ، بلکہ میں خوشی سے حقہ تیار کرنے کا خود ہی پوچھ لیا کرتا تھا
کیونکہ حقہ تازہ کرتے ہی ابا جی کہا کرتے تھے کہ چاچے فرید کو دے کر آؤ۔
میں حقہ دینے کے بہانے جاتا تھا اور یہیں بیٹھ کر باتیں سننے لگتا تھا۔
چاچا عنایت مستری اگلے ویڑے والا ، صدیق کھل والا ، حاجی مانی روپے والیہ، حاجی خوشی محمد نائی، میرا ماموں مختار اور کئی لوگ یہان محفل جما کر بیٹھتے تھے ۔
مستری عنایت ایک انتہائی بیدار مغز اور دانا شخص تھا ۔
مستری عنایت کا بات کرنے کا انداز بھی بڑا دیمہا سا تھا۔
لطیفے ، شعر ، حکایتیں کہانیاں کیا کیا نہیں جو میں نے یہاں سنا۔
مستری صاحب نے اپنے زمانے کے لحاظ سے بڑی دنیا پھری ہوئی تھی ۔ اگرچہ کہ غیر ممالک کی سیاحت کا تو تجربہ نہیں تھا لیکن پاکستان کے مختلف علاقوں کی دلنشین باتیں ان سے سنا کرتے تھے۔
خود چاچا فرید صاحب جو کہ امرتسر سے ہجرت کر کے ائے تھے اور انہوں نے تقسیم ہند کے قتل عام کو انکھوں سے دیکھا تھا اور اس کو دل اور جگر تک سے محسوس کیا ہوا تھا ۔
اس زمانے کے بالغوں کی محفل کیا پاکیزہ ہوا کرتی تھی ایک بچہ ان کی باتیں سن سکتا تھا۔
یہیں میں نے وہ باتیں سنی کہ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے انے والوں نے کس طرح اس سفر کو طے کیا ۔
بیل گاڑیوں پر ، پیدل اور دوسرے جانوروں پر سفر کی روداتیں ۔ سکھوں کی گھاتیں ، اور قتل و غارت گری ۔
غلام ربانی صاحب جو کہ ہمارے محترم بزرگ ہیں اور مخلتف انگریزی اخباروں میں لکھتے بھی ہیں ، غلام ربانی صاحب ، چاچا جی غلام فرید صاحب کے بڑے بیٹے ہیں جو ان دنوں پاکستان میں ہی مقیم ہیں انہوں نے اپنی ساری جوانی برطانیہ میں گزاری ہے۔
تقسیم کے وقت غلام ربانی صاحب ابھی شیر خوار بچے تھے ، چاچا جی غلام فرید صاحب کی بہن ، بھوا جی بتاتی ہیں کہ
ایسا ابتلا کا زمانہ تھا کہ ہمیں اپنا اپ لے کر چلنا مشکل تھا ، ایسے میں ایک بچے کو ساتھ لے کر چلنا ایک مصیبت نظر اتا تھا
بھوا جی کی انکھوں سے انسو نکل گئے اس بات کو بتاتے ہوئے کہ ایک وقت ایسا بھی ایا کہ ہم نے غلام ربانی کو ایک جگہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کو زمین پر لٹا کر چل پڑے
لیکن مجھ سے برداشت نہیں ہوا کوئی پچاس کہ ساٹھ قدم چل کر میں پلٹ کر بھاگی اور غلام ربانی کو اٹھا لیا کہ اس کو چھوڑ کر جانا برداشت نہیں ہوا ۔
اج کی نسل کو اس بات کا کیا احساس ہو گا کہ پاکتسان بناتے وقت ہمارے اپنوں نے کیا کیا مصائب اٹھائے تھے ۔
یہیں سامنے چوہدریوں کا ڈیرا ہوا کرتا تھا ۔
چوہدری محمد نواز چیمہ جن کو ہم لوگ وڈے چوہدری صاحب کہا کرتے تھے۔
ڈیرے میں چار پایوں پر لوگوں کی رونق لگی رہتی تھی ، چوہدری صاحب ہر روز یہیں بیٹھا کرتے تھے
جہاں لوگوں کے مسائیل کی پنچایت کا بھی کام ہوتا تھا۔
تھانے سے انے والے کسی بھی اہلکار کو گاؤں میں کسی سے بھی معاملہ ہوتا تو اس کو پہلے چوہدری صاحب کے پاس انا ہوتا تھا
اور چوہدری صاحب یہیں پر متعلقہ بندے کو بلا لیا کرتے تھے
پیپل کے درخت کے ساتھ نلکا لگا ہوتا تھا۔
یہاں چوہدری صاحب کی بلائی ہوئی قوال پارٹیوں سے کئی دفعہ قوالی سنی ۔
ٹھمری اور کلاسکی راگوں کو سننے کا موقع یہیں ملا ۔ اگرچکہ ان راگوں کی سمجھ اج بھی کم ہی ہے۔
راگ دادرہ یا ٹھمری کو کسی استاد سے سننے کا موقع ملے تو اس سے لطف اٹھانے کے پیچھے چوہدریوں کے ڈیرے کی انہی محفلوں اعجاز ہے کہ ان راگوں میں دلچسپی ہوئی
ورنہ ہمارے طبقے کے لوگوں کو ان چیزوں کی بھنک بھی کہاں ملتی ہے۔
یادوں کا ایک سلسلہ ہے کہ لہر در لہر چلی اتی ہیں
لیکن اج یہیں بس کرتا ہوں
باقی فیر سہی!۔