سید ضمیر جعفری
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نہیں ہورہا ہے،مگر ہو رہا ہے
جو دامن تھا دامن بدر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
ادھر کا مسافر ادھر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
چلی تو مسافر اچھلنے لگے ہیں
جو بیٹھے ہوے تھے وہ چلنے لگے ہیں
قدم جا کے ٹخنوں سے تلنے لگے ہیں
جو کھایا پیا تھا اگلنے لگے ہیں
تماشہ سر رہگزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
وہ اک پہلواں پیٹھ میں تھم گیا ہے
بہت بھی گیا تو بہت کم گیا ہے
کوئی ہاتھ پتلون میں جم گیا ہے
کوئی ناک دیوار میں تھم گیا ہے
کوئی سرو قد مختصر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
کوئی نصف بیٹھا ہے آدھا کھڑا ہے
جہاں پر کھڑا ہے وہیں پر گڑا ہے
کسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہے
کہاں ہاتھ تھا اور کہاں جا پڑا ہے
جو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو کالر تھا گردن میں لر رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں ٹر رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس اک پر رہ گیا ہے
کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے