خشک سردی کی شدت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ،کافی عرصہ سے بارش بھی نہیں ہوئی،ماحولیاتی آلودگی اور خشک سرد موسم کی وجہ سے بچوں اور بزرگوں میں وبائی امراض کے پھیلنے کا خدشہ ہے،بزرگ لوگ تو چادریں ،اور سر پر ٹوپیاں پہنے نظر آتے ہیں،مگر جوان لوگ تو سویٹر پر ہی اکتفا کر رہے ہیں،ویسے دکانوں اور اسٹالوں پر گرم سویٹروں ،جرسیوں،جیکٹوں،دستانوں ،جرابوں ،ٹوپیوں،کی خریداری دھڑا دھڑ کی جارہی ہے،گرم اور خشک میوہ جات کی خریداری میں بھی خاصی دلچسپی لی جا رہی ہے،وہ الگ بات کہ کاجو ایک ہزار روپے کلو تک بک رہا ہے،ہمارے دیہات میں آجکل ساگ اور مکئی کی روٹی زیادہ تر ناشتہ میں بنائی جارہی ہے،اس بار ہمارے علاقے میں گنے کی کاشت بہت کم کی گئی ہے،جس کسی نے لگایا ہے،وہ مفت خوروں کو گنا فری چوپانے پر راضی نہیں ہے،اور یہ کہ کر ٹال دیا جاتا ہے،کہ یہ جانوروں کا چارہ ہے،چوپنے والا نہیں ہے.پھر بھی منچلے کب باز آتے ہیں،یہ تو راتوں کو سڑکوں پر بیٹھے اس ٹرالی کے انتظار میں ہوتے ہیں جس پر گنے لدے ہوں،اور پھر کسی بات یا خطرے کی پرواہ کیے بغیر ٹرالی کے پیچھے دوڑ لگاتے ہیں،یہ گنے کھینچتے ہیں،اور انکے دوسرے ساتھی سڑک سے سمیٹتے ہیں،سردی سے یار لوگوں کو چاہے نمونیہ ھوجاے،یار لو گ باز نہیں آیں گے