سچا واقعہ -تحریر علامہ افتخار


یہ کوئی پانچ برس پہلے کی بات ہے، میں سیالکوٹ میں مقیم اپنی خالہ جی کے گھر انکے بیٹے کی شادی کے دن مقرر کرنے کی رسم پر گیا ہوا تھا،سردیوں کی شام تھی ،رسم کے بعد کھانا تھا، رات کے ساڑھے نو بج چکے تھے ، مجھے تلونڈی گھر واپس بھی آنا تھا. میرے ایک عزیز اپنی فیملی کے ساتھ لاہور سے تشریف لاے ہوے تھے ،انکو بھی واپس جانا تھا، انہوں نے مجھے گوجرانوالہ تک لفٹ آفر کردی ، جب ہم گوجرانوالہ پنہچ گۓ، تو میں نے انھیں خراب حالات کے پیش نظر، شہر کے اندر بذریع جی ٹی روڈ لاہور جانے کا مشورہ دیا ،میں نے انھیں تلونڈی ڈراپ کرنے کا نہیں کہا کیونکہ اس وقت انکا مجھے تلونڈی تک چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں تھا، میں گوجرانوالہ اوور ہیڈ برج کے پاس پنہچ کر گاڑی سے اتر گیا ، انہوں نے گوجرانوالہ ماڈل ٹاون میں ایک عزیز کے پاس تھوڑی دیر رکنا تھا، میں ان سے اجازت لیکر سیالکوٹی پھاٹک کی طرف پیدل چلنا شروع کردیا، سڑک بلکل ویران پڑی تھی، ساڑھے دس بج چکے تھے، میں نے سوچا کہ میں پھاٹک کراس کرکے اوپر سے شیرانوالہ باغ پھاٹک سے جاتا ہوں ،کیونکہ یہ رستہ بارونق ہوتا ہے، میں بخیر و عافیت پونڈانوالہ، زمیندار اڈے پر پنہچ گیا، وہاں صرف ایک وین کھڑی تھی، ڈرائیور اس گاڑی کے اندر بیٹھا تھا، جبکہ کوئی بھی مسافر گاڑی میں یا باہر نہیں تھا، ڈرائیور سے میں نے تلونڈی جانے کے لئے پوچھا ،تو اس نے کہا کہ پانچ سو رپے لوں گا، میں نے اسے تین سو کہ دیا ،وہ نہیں مانا،میں نے سوچا یہاں سے چاند گاڑی پر بیٹھ کر چھچروالی پل تک جاتا ہوں ،کوئی نہ کوئی گاڑی وہاں سے ضرور مل جائے گی.یہ سوچ کر میں سڑک کی جانب بڑھا ،کوئی پانچ منٹ ہوچکے تھے، ابھی تک کوئی چاند گاڑی خالی نہیں گزری تھی ،اتنی دیر میں گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی ، کیا دیکھتا ہوں کہ وہی وین ڈرائیور مجھے اشارہ کرکے بلا رہا تھا، میں واپس اسکے پاس پنہچا ، میں نے پوچھا کیوں بھائی تین سو پر جانے کے لئے تیار ہو؟ وہ مجھے کہنے لگا یہ بات نہیں ہے ، تمھیں رکشے میں بیٹھے مسافر بلا رہے ہیں. میں سخت پریشان ہوگیا ،سوچنے لگا کہ اگر اس رکشے میں میرا کوئی واقف بیٹھا ہے، تو وہ رکشے سے خود باہر کیوں نہیں آیا ، بہرحال میں وین ڈرائیور سے ناراض ہونے لگا ،کہ یار تمہیں ہارن دیکر مجھے نہیں بلانا چاہیے تھا، کیونکہ میرا اگر کوئی جاننے والا اس رکشے میں بیٹھا ہوتا تو مجھے خود آواز دے دیتا ،رکشے سے باہر آجاتا ، اصل میں میں خوفزدہ ہوچکا تھا،میں اپنے آپکو تنہا محسوس کر رہا تھا ،میرے نہ چاہنے کے باوجود وین ڈرائیور مجھے لیکر رکشے کے پاس آگیا ، جونہی ہم رکشے کے پاس پنہچے، میں نے دیکھا رکشا ڈرائیور ، رکشے کو بند کرکے اپنی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا، یہ وہ جگہہ تھی جہاں پہلے کھالوں کا کارخانہ ہوا کرتا تھا، اچانک رکشے کا پچھلا دروازہ کھلا ،میں نے کیا دیکھا کہ کوئی تیس برس کی ایک عورت جس کے چہرے پر لگا میک اپ ابھی تازہ تازہ ہی تھا، اور اس کے ساتھ دو اور لڑکیاں جن کی عمریں مشکل سے بیس بیس برس ہونگی ، اس عورت نے ہاتھ میں موبایل پکڑ رکھا تھا، مجھے کہنے لگی ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے تم نے ہی فون کیا تھا نہ ؟ کہ میں نے فلاں کلر کی پینٹ شرٹ پہنی ہوئی ہے اور اس جگہہ پر کھڑا ہوں، دوستو میرے پاؤں سے جیسے زمین نکل گئی، میں نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے سنبھالا ، میں نے تو یا حفیظ کا ورد شروع کردیا ، میں نے اسے کہا کہ بی بی نہ ہی میں نے تمہیں فون کیا ہے نہ ہی میں تمہیں جانتا ہوں، مجھے پریشان نہ کرو، لیکن جناب اس کی مزید جرات ، کہ اس نے میرا ہاتھ ہی پکڑ لیا ،اور مجھے تحکمانہ لہجے میں کہنے لگی کہ بلایا ہے تو اب ساتھ چلو ،اور رکشے میں کھینچنے لگی، میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوے اسے سخت لہجے میں کہا ، کہ میں اس وین اڈے کی چھت پر سوے ہوے سیکورٹی گارڈز کو بلاتا ہوں، اور پھر ساتھ ہی تھانہ سیٹلائٹ ٹاون میں میرا بھائی ایس ایچ او تعینات ہے، اسے کال کرتا ہوں ، یہ سن کر وہ ٹھٹک گئی،اور وہ لوگ رکشا سٹارٹ کرکے وہاں سے بھاگ گئے ، ورنہ میں اغوا ہوچکا تھا، بہرحال مجھے اس وین ڈرائیور پر بہت دکھ ہورہا تھا،جو خود تو چسکا لینے کے موڈ میں تھا، اور مجھے مروانے لگا تھا، میں نے اسے کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا ، لیکن کل یہ بات اڈے والوں کے ساتھ ہوگی ، جس پر اس نے میرے ساتھ معزرت کی اور پھر تین سو رپے کرایہ پر مجھے لیکر تلونڈی آگیا . بت خانہ سمجھتے ہو جسکو پوچھو نہ وہاں کیا حالت ہے-ہم لوگ وہیں سے لوٹے ہیں بس شکر کرو لوٹ آے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.