اس جاپانی اماں کی عمر 70 کے لگ بھگ تھی.بچے شادیوں کے بعد بچھڑ چکے تھے.تنہائی دور کرنے کے لئے بلی اور کتا پال رکھے تھے.اور انکو بچوں جیسے پیار کرتی تھیں.دن کو مصروف رکھنے کے لئے چبا کی ایک فیکٹری میں رنگ و روگن کا کم کرتی تھیں.جب ہم 1992 میں اپنے ساتھ کچھ دوستوں کو لے کرجاپان پہنچے تو پاکستانی دوست رشید کے گھر پر ان سے ملاقات ہوئی.جس میں فروٹا ساں نے ہمارے بارے میں پوچھا اور یہ سوال کیا کے یہ بی ہماری فیکٹری میں کام کریں گے .جس پر رشید نے بتایا ان کو معدہ کی تکلیف ہے ان سے کم نہی ہوگا معدہ کی تکلیف کا سن کر فروٹا سان کسی ماں کی طرح غمگین ہوگئیں.اور بتایا کے یہاں سے کوئی فرلانگ بھر کے فاصلے پر ہسپتال ہے.جس میں یہ ٹریٹمنٹ سپیشل کیا جاتا ہے.اپ انہیں وہاں لے جائیں.لیکن بابا دیہاڑی کون توڑے یہ سوچ کر رشید نے سنی ان سنی کر دی.یہ سب پاکستانی اگلے دن کام پر چلے گۓ.اور ہم جی بھر کے سوتے رہے.پھر اٹھے نہاے فریزر سے دودھ نکل کر چاے بنائی اور بریڈ کو گرم کیا فرائی انڈا بنا لیا.ناشتے سے فارغ ہو کر باہر دھوپ میں بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا.دوپہر کے 12:05 منٹ ھوے تھے. کہ اچانک باہر فروٹا ساں کو سا ئیکل سمیت دروازے پر پایا.ہم نے سلام کیا.انہوں نے کھا کے میں اس لیے ائی ہوں.میں نے چھٹی لے لی ہے.تاکہ آپکو ہسپتال لے جاؤں.ہماری آنکھیں نمناک ہو گئیں.انسانی ہمدردی کا اس سے اپ اندازہ کر سکتے ہیں. ڈاکٹر کو جا کر کہنے لگیں.یہ جوان اپنے دیس سے دور آیا ہے.یہ بھی کسی ماں کا بیٹا ہے.اسکو بالکل ٹھیک کر دیں.ڈاکٹر صاحب نے فخر سے ہاتھ اٹھا کر کہا کے ہماری دوائی سب سے اچھی ہے اپ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گۓ.اور سچ میں اس دوائی نے کمال کا اثر دیکھیا اور بفضلے خدا ہم جلد ہے ٹھیک ہو گۓ.گولڈن وک چھٹیاں تھیں.اور وہاں اماں کی بلی بیمار پڑ گئی.ہم اماں کے گھر بیٹھے بلی کی تیمارداری کر رہے تھے.فیکٹری کا مالک آیا اور کہنے لگا.اماں جی تیاری کریں.sapro ٹور پر آپکو دسرے ورکرز کو سیر کروانے کے لئے لے کے جانا ہے.ماں جی نے جانے سے انکار کر دیا اور کھا کے میری بلی بیمار ہے.اور یہ کہ کر رونا شرو کر دیا.مالک نے اماں کو تسلی دی.اور جلدی سے ویٹرنری ڈاکٹر کو فون پر اماں کے گھر انے کے لئے کہا اور اڈریسس سمجھایا.تھوڑی دیر بعد ہے ڈاکٹر دروازے پر موجود تھا.مالک نے ہفتے بھر کی دوائی اور دکھبل کی ڈاکٹر کو ہدایت کی بل پاکستانی 60000 روپے بنا.مالک نے ڈاکٹر کو پیسے ادا کئے اور بلی لے جانے کو کھا.اور اماں جن کو ساتھ جانے پر راضی کر لیا.
یہ کہانی علامہ افتخار احمد خالد کی خود لکھی ہی کتاب سفر نامہ گھر کیسا لگا ہے سے لیا گیا ہے