تلونڈی موسیٰ خان- پھگن آج چڑھ گیا ہے. آج اس بات کا اعلان خشو شیخ – خوشی شیخ نے پورے گاؤں کا ڈھول کی تھاپ پر چکر لگا کر کیا ہے. قارئین ! جیتے جی سارے موسم آتے ہیں، کبھی خزاں کبھی بہار ! یہ ڈھول بجانے والے کبھی بڑے مقبول ہوا کرتے تھے، جب سے نت نۓ بینڈز آگئے، اور ڈھولچی بھی نت نۓ زرق برق لباسوں میں سج دھج کر گوندلانوالہ اوورہیڈ برج کے پاس جمع ہونا شروع ہوگیے، تو دیہاتوں کے ڈھول بس میلوں کی حد تک محدود ہوگۓ. مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب چچا صدیق اورچچا صادق، مطلب ڈاکٹر ریاض صاحب ٹائیم اینڈ تاریخ والوں کا بینڈ ہوا کرتا ، تو ان بیچاروں کے گلے بڑے بڑے پیتل کے انسٹرومنٹ بجاتے بجاتے سوکھ جایا کرتے اور یہ لوگ بار بار پانی پیا کرتے، اور جب اپنے باجے کو زمین کی طرف کرتے تو اس میں سے تھوک نکلا کرتا تھا. میرے والد مرحوم انکو میرے چچا کی شادی کے لئے بک کرنے گۓ، تو دس روپے انکو دئیے اور وہ بہت خوش ہوے، جب وہ گھر آے تو میرے والد جو کہ سکول ٹیچر تھے انہوں نۓ بینڈ والوں سے کہا کہ وہ چھت پر چڑھ کر قومی ترانہ سنائیں، اور انہوں نۓ جیسے تیسے قومی ترانہ سنایا. قومی ترانے پر ہی انکا زور ہوگیا تھا، پھر انہیں زوروں کی بھوک لگ گئی . … اک شجر پیار کا ایسا بھی لگایا جاے – جس کا ہمساے کے گھر میں بھی سایہ جاے