تو جناب !!! جیسے ہی میں نے اپنے ابا جان کی آواز سنی … پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی… بس پھر کیا تھا … تھپڑوں کی بارش شروع ہوگئی- ابا مرحوم کے ہاتھ بڑے بھاری تھے، کانوں میں سیٹیاں گونجنے لگیں.. مجھے کہنے لگے سچ سچ بتاؤ… میں نے روتے ہوے وہی بات سنائی جو بھائی نے مجھے کہا تھا ..مگر والد صاحب نہیں مانتے تھے ، وہ بلکل کسی جج کی طرح بار بار مجھے سوال کرتے اور کہتے پھر بات سناؤ، تم جھوٹ بول رہے ہو. اور پھر مارتے.. ہاں جب ہم سکول سے نکلے تو قبرستان کے دربار پر میلہ لگا ہوا تھا … والد مرحوم میلوں پر جانے کے بہت خلاف تھے .. جو مجھے سمجھ میں آیا کہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں میلہ دیکھنے کے لئے سکول رکا تھا ،حالاں کہ یہ بات بلکل نہیں تھی …میں تو اپنے بھائی کی بات پر رکا تھا ..وہ مجھے مارتے رہے اور یھاں تک کہ سنگم سینما کے نزدیک کی آبادی جسے بلھے کوٹ کہا جاتا ہے ..وہ آبادی آگئی .. یہاں میرے والد صاحب کے ایک بہت اچھے دوست جو کہ مہر برادری سے تعلق رکھتے تھے انکا گھر تھا .. والد مرحوم اکثر انکے گھر اپنی سائیکل کھڑی کر دیا کرتے .. میں اس گھر تک بھی روتے روتے سسکیاں لیتے ہوے جا رہا تھا ..لعل دین مہر صاحب کے بچے ابا جی کے شاگرد تھے ..اب انکے بیٹے میاں حبیب عالم بڑے معروف یورالوجسٹ ہیں. جب حبیب صاحب کی والدہ نے مجھے روتے ہوے دیکھا تو اس نے ابا جی سے کہا..بھائی جان یہ کیوں رو رہا ہے ..ابا جی نے بتایا کہ میں نے اسے جھوٹ بولنے پر مارا ہے .. تو بھلا ہو خالہ جی مریم کا انہوں نے کہا بھائی جان آپنے چڑیا کے بوٹ کو مارا ہے .. آپ نے بڑی زیادتی کی ہے .. یہ بچہ بہت لائق ہے جھوٹ نہیں بولتا ہوسکتا ہے یہ عبدل ستار کے کہنے پر ہی رکا ہو.سچی بات بھی یہی تھی ! خیر اسکے بعد خالہ جی مریم میرے لئے کھانا لے آئیں ..پر مجھ سے وہ کھانا نگلا ہی نہیں گیا .. پھر والد صاحب مجھے لیکر بس سٹاپ پر آگئے. بس پر مجھے بٹھانے کے بعد ایک ریھڑی والے کے پاس گۓ اور انگور لیکر واپس آگۓ.. مجھے کہنے لگے کھاؤ!!! مجھ سے وہ بھی نہیں کھاۓ جاتے تھے .. پھر گھسے سے بولے کھاؤ نہیں تو اور ماروں گا ..پر میں نے کہا یہ انگور کھٹے ہیں….. مجھے اس وقت آپنے بڑے بھائی پر بہت غصہ تھا کہ اسکی وجھہ سے مجھے آج مار پڑی ہے ..میں گھر جاتے ہی ساری بات اسے اور ابا جی کے سامنے کروں گا ..تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاۓ ..لیکن جونہی ہم گھر پنہچے ، تو سب سے پہلے میری ماں نے مجھے سینے سے لگایا اور میرا ماتھا چومتے ہوے انہوں نے خود رونا شروع کر دیا .میرے بڑے بھائی نے ابا جی سے آنکھیں بچاتے ہوے اشارے سے آپنے ہاتھ جوڑے … اور پھر وہ جلدی سے آپنے کمرے میں گۓ … واپسی پر میرے بھائی نے اپنی بند مٹھی کھولی …. تو اس میں مجھے ریوڑیاں ، اور دو تین ٹافیاں نظر آئیں … اور یہ وہ خود مار سے بچنے کے لئے مجھے رشوت دے رہے تھے … میں مسکرا کر ساری نادانستہ سزا کو بھول گیا
اے نکتہ جے کر کوئی جانے تے کرے محبت بھائیاں
بے عقلاں نوں کیا ہے مالم تے نہ کر مغز کھپایاں
1 comment for “بقیہ ایک یادگار پھینٹی -علامہ افتخار کے بچپن سے کی آخری قسط”