بھائی ننھا کی یادیں ، تحریر خاور کھوکھر(کنگ)ـ

خاور کھوکھر

بچپن ميں سنى هوئى بعض باتيں جن كو بظاهر ادمى بهول چكا هوتا هے ـ كهيں كسى كى بات سن كر ياد آ جاتى هيں ـ
ميرا چهوٹا بهائى جس كو همارے گاؤں اور اور اردگرد كے ديهات ميں لوگ حاجى ننها كے نام سے جانتے هيں ـ
بچپن ميں حاجى ننها نے گدها ريڑه بنايا هوا تها ـ اس لئے حاجى ننها عموما اپنے ماموں كے سيلر(رائس ملز)پر بهى بيٹها كرتا تها ـ
جهاں لوگوں كاجمگهٹا لگا رهتا هے ـ حقّه چهكنے كے عادى بزرگ. فصل كے لين دين كے لئے آئے هوئے ذميندار.پل دو پل بيٹهـ كر جانے والے راهگزر ـ
ايكـ دن ننها كهنے لگا كه اج سيلر پر ايكـ مراثى اياتها جو لوگوں كو قسمت كا حال بهى بتاتا تها اور بڑى دلچسپ باتيں كرتا تها ـ
كسى نے اس مراثى سے پوچها كه بها’ئى كهاں كے رهنے والے هو اس مراثى نے جواب ديا ـ
ڈسكـ پور دے كول گهلوٹ گڑه جتهے شمسا ندى وگدى اےـ
اس پر حاجى ننهے كا تبصره تها كه اس مراثى نے ڈسكے كو ڈسكـ پور بناديا هے اور گلوٹياں (يه وهى قصبه هے مشهور گلوكار غلام على جهان كے پلے بڑهے هيں) كو گلوٹ گڑه اور نندى پور والى نهر(گوجرانواله سے ڈسكه جاتے هوئے راستے ميں اتى هے جس پر نندى پور پاور اسٹيشن هے) كو شمسا ندى بنادياهے ـ
يه بات مجهے اس لئے ياد آ گئى كه بى بى سى پر كسى صاحب كى كتاب كے متعلق لكها تها ـ نيرولا صاحب جو كه تحصيل ڈسكه كے ايكـ گاؤں كندنسياں كے پيدائشى تهے جو تقسيم كے وقت هندوستان چلے كئے تهے ـ
ميرے بهائى ننها كے بقول اس ميراثى كے متعلق نيرولا صاحب لكهتے هيں ـ

نیرولا نے خانہ بدوش سکھوں کے ایک قبیلے کا بھی ذکر کیا جو دنیا بھر میں گھومتے تھے اور سال دو سال بعد کچھ ماہ کے لیے ڈسکہ میں اپنے گاؤں گھولاٹیاں (گلوٹياں) آ جاتے تھے۔

یہ لوگ قسمت کا حال بتاتے تھے۔ ان میں سے کچھ ہاتھ دیکھتے، کچھ ماتھا دیکھتے اور کچھ تاش کے پتوں کی مدد لیتے تھے۔

بھترا سکھوں کے آنے سے ڈسکہ میں رونق ہو جاتی تھی۔ ان میں سے کچھ سخت گرمیوں میں سکاٹ لینڈ سے خریدے گئے گرم سوٹ اور روسی ٹوپیاں پہن کر بازار میں گھومتے تھے۔

یہ لوگ چھ ماہ ڈسکہ میں رہتے اور اِن کے آتے ہی ہر چیز مہنگی ہو جاتی۔دنیا بھر سے کمایا ہوا پیسہ لٹا کر قیمتی سامان بیچ کر ایک بار پھر مختلف بّرِاعظموں کی طرف روانہ ہو جاتے۔

اور اگر کوئی ان کے گھر کے بارے میں پوچھتا تو بڑے پیار سے بتاتے کہ ڈسکپوری اور گھالوٹ گھر کے بیچ ایک چھمکا ندی بہندی ہے، شیر تے بکری اک گھاٹ تے پانی پیندے ہن، ہنس موتیاں دی چوغ چوغدے ہن، اوس نگری دے اسی رہن والے ہین

اس قبیلے کے ایک فرد نے کئی سال بعد لندن میں ماربل آرچ پر نارولا کو روک ان کے مستقبل کا حال بتانے کی کوشش کی۔ نارولا نے کچھ دیر اس کی بات سننے کے بعد اس سے پوچھا کہ وہ ڈسکہ کا رہنے والا تو نہیں۔

وہ سکھ ڈسکہ کا نام سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ گھر تو وہ پہلے بھی کم ہی رہتے تھے لیکن دِل میں ایک امید اور یاد ضرور ہوتی تھی۔

اب یہ دونوں نہیں رہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.