جب ہم نے ہوش سنبھالی تو تلونڈی کے ہائی سکول کی کبڈی اور رسہ کھینچنے کی ٹیم بڑی مضبوط تھی
ان ٹیمیوں ميں شامل کھلاڑی ہم سے ایک نسل پہلے گو لوگ تھے
جن میں سے کتنوں کو اب کی تلونڈی نی نئی نسل جانتی بھی نہیں ہو گی
اور شائید ان کے ناموں سے بھی واقف ناں هوں
حنیف نائی !!ـ
یاد رہے که ایک چاچا حنیف نائی تھا جن کا گھر چوہدری میاں خان کے مکان کے نزدیک ہے
لیکن جن حنیف نائی کا میں ذکر کر رها هوں
یه حاجی خوشی محمد نائی کے بیٹے هیں
حنیف نائی کا کبڈی اور سے کی ٹیم ميں بڑا نام تھا
لیکن ماچھیوں کے لڑکے جن کے نام اب مجھے یاد نہیں آ رهے
جو ماسٹر ریاست صاحب کے بھائی تھے
غالباً لیاقت ماچھی
یه لڑکا کبڈی ميں اپنی تیزی کے لیے مانا جاتا تھا
اس وقت تک سکول کی گراؤنڈ نہیں هوا کرتی تھی
سکول کے سامنے کی سڑک جو کہ اب میرے گھر سے لے کر رحمانیوں کے گھر تک جاتی هے ،
اسی پر رسہ کھینچنے کے مقابلے هوا کرتے تھے
سکول کا صحن جہاں اب باغیچه سا لگا هے
یهاں والی بال یا کبڈی کے کھیل هوا کرتے تھے
یہیں پہ میں نے پول واٹ ( اونچی چھلانگ) کی پریکٹس کرتے دیکھا ہے
چوہدری پرویز چیمہ اور چوہدری محبوب الہی چیمہ عرف چوہدری پپو، کو ان کے ساتھ هوا کرتا
چاچا عنائیتی ( عنائت مسیح ولد بابا بوٹا) چاچا عنائیتی باباے بوٹے کا بیٹا ہے
بابا بوٹا؟
تلونڈی اور اس کو اردگر کے دیہات ميں کون هو گا جو بابے بوٹے کو نہیں جانتا؟
بابا بوٹا جو که سکول کی صفائی کی سروس پر تھا
الله بابے کو جنت نصیب کرئے ، بابا بڑا شغلی اور ہنس مکھ بنده تھا
ایسی ایسی جگنیاں بنا دیتا تھا که بس کیا بتاؤں که
ایک دو جگنیان بابے کی ایسی بھی سنی هیں که جن میں میرے والدین کو بھی بچے هی کے روپ میں دیکھا ہے
بابے کے لیے جو لوگ بچے تھے
وه
همارے لیے والدین اور بڑے بن چکے تھے
اس لیے میں اپ کو یہ جگنیان نہیں سناؤں گا!!ـ
اس وقت جو زمین سکول کی گراؤنڈ ہے
اس کو کتھے کہا کرتے تھے اور ان ميں ایک کنواں بھی هوا کرتا تھا
یہ زمین میرے بچپن کے یار یوسف لوہار مشین والے کے ابا جی کی ملکیت تھی
اس زمین کے اور سکول کے درمیان کی زمین تھی چوہدری رحمت الله روپے والیا کی !!ـ
وجہ تسمیه روپے واليه ؟
روپے والا کھوہ !!ـ
جو که اس وقت کے رحمانیوں کے سیلر کے پیچھے حاجی مان الله کی زمین ہے
یهان هوا کرتا تھا ایک بڑا سا کنواں
جهاں پر کھیتی باڑی کرنے والے خاندانوں کو روپے والیے کہا جاتا هے
ان خاندانوں ميں شامل هیں
حاجی امان الله ، چوہدری مرید حسین تھانیدار، چوہدری خالد ولد میان صادق
هاں تو بات هے رهی تھی سکول کی گراؤنڈ کی !!ـ
جب یه زمین سکول کو گراؤنڈ کے لیے الاٹ ہو گئی تو
اس وقت کو چوہدری محمد نواز چیمہ زیلدار نے سکول کے صحن ميں پودے وغیره لگوا دیے
جو که چوہدری صاحب کے بیٹے، چوہدری مقبول الہی کی شادی میں شامیانوں کے اندر بڑے خوبصورت لگتے تھے!!!ـ
اس کے بعد کی جو نسل سپورٹس میں مشہور هوئی وه ہے
هم سے کچھ سال چھوٹی عمر کی
جو که والی بال کی وجہ سے جانی جاتی ہے
ان میں
مغربی محلے کے کمہاروں میں سے هوا کرتا تھا ماموں اصغر
انور گھمن، سیف الله ناگره
اور
مختار چیمہ!!!ـ
مختار چیمہ اتنا سرخ رنگ تھا که
کچھ دوست اس کا نام هی ریڈ مین بلایا کرتے تھے
خوش مزاج ، یار باش مختار کے قہقہے اب بھی یاد آتے هیں
میں جو که سدا کا آوارہ گرد هوں جب بھی پاکستان جانا هوا کرتا تھا تو
دیس دیس کی کہانیاں سننے کے شوقین دوستوں میں ایک مختار چیمہ بھی هوا کرتا تھا
میں نے کہیں کوریا میں پائی جانے والے ایک چیز “جینسین ٹی” کا ذکر کیا تھا کسی کہانی میں
که کجھ سال بعد مختار کو بھی روزگار کے لیے کوریا جانا هوا
تو جب مختار کوریا میں تھا
تو جب اس کو معلوم هوا که خاور کوریا ایا هے
تو مختار مجھے ملنے آیا تھا
اس کے ساتھ ماسٹر شریف صاحب کا بیٹا ناصر بھی تھا
تو مختار نے چھوٹتے هی پوچھا که
سر جی وه والی بوٹی جس کا آپ نے بتایا تھا کہ تھکاوٹ اتارتی ہے
وہ کهاں ملتی هے؟؟
میں مختار کو لے کر دوائیوں کی دوکان پر لے کر گیا
اور اس کو وه دوائی لے کر دی
مختار چیمہ ، جس نے بچپن سے بڑی محنت کی تھی
حالات کی سختی سے بڑا شائستہ بنده بن چکا تھا
مختار کو جبڑوں کے نیچے سوجن هو جانے کا عارضہ تھا
جس کو پنجابی میں کنوویں بھی کہتے هیں
ان سے مختار کو تکلیف بھی هوتی تھی لیکن
اس سے زیاده مختار احساس کرتا تھا که دیکھنے والے کے اجھا نہیں لگتا
لیکن یقین کریں که
مجھے مختار کبھی بھی ان کنوویوں کی وجہ سے ” کوجا” نہیں لگا
لیکن مختار نے اس سوجن سے نجات کے لیے اپریشن کا فیصلہ کیا
اور
پھر اپریشن کے دوران جان ، جان افریں کے والے کردی
إنا لله وإنا إليه راجعون
الله تعالی مختار کو جنت نصیب فرمائیں
آمین ـ