برسوں بیتے اس بات کو کہ یہ گاؤں جس کو تلونڈی موسے خان کہتے ہیں ، ہم سے چھوٹے ہوئے
کئی تبدیلیان دیکھی ہمارا بچپن تھا کہ پر تبدیلی حسن لگتی تھی۔
بارورے والے رستے کو بھٹی بھنگو روڈ بنتے دیکھا، آوے کی گڑھوں کو مچھلی فارم بنتے دیکھا۔
عید گاھ کی شکل تبدیل ہو گئی
اور تو اور کہ اشتعمال ہوتے دیکھا جس کی وجہ سے بہت سے ڈیروں کا وجود ہی ختم ہو گیا
کہ جن ڈیروں پر جمنے والی راتوں اور دنوں کی محفلوں کی کہانیاں ہمارے دور کے بڑے سنایا کرتے تھے۔
ککھاں والا کھوہ جو کہ اج کے قبرستان سے شمال مغرب کی طرف کوئی تین چار بیگھے کے فاصلے پر ہوتا تھا۔
یہان کئی گھروں کی کاشتکاری ہوتی تھی جس کی وجہ سے ان گھرانوں کے لوگ اور ان سے منسکل دوست احباب اور کام کرنے والے بھی یہی مل بیٹھا کرتے تھے
ابھی معاشرے میں ٹیلی وژن نہیں ایا تھا، اکا دکا لوگوں کے پاس ریڈیو ہوا کرتے تھے۔
حقے کے گرد مل بیٹھنا ہی محفل ہوا کرتی تھی یہیں خبروں کا تبادلہ بھی ہوا کرتا تھا
اس دور میں یہ ہوا کرتا تھا کہ جس گھر میں مہمان ایا ہوتا تھا ، گاؤں محلے کے لوگ اس مہمان (پروہنے) کو ملنے کے لئے اتے تھے۔
جہاں اس پروہنے سے اس کے گاؤں دیہاتوں کی باتیں اور خبریں سنی جاتی تھیں اور اپنی سنائی جاتی تھیں۔
میں ان بیتے برسوں کی بات کر رہا ہوں ، جن دنوں لوگ جھوٹ سے نفرت ہی نہیں کرتے تھے ،بلکہ جھوٹ بولتے بھی نہیں تھے ، ایک آدھ بندہ اگر جھوٹ بولتا بھی تھا تو سارے علاقے کو اس کا علم ہوتا تھا ، جس کی وجہ سے اس بندے کا اعتبار ہی نہیں کیا جاتا تھا
اس لئے پروہنوں ( مہمانوں) سے سنی ہوئی باتیں ہی خبریں ہوا کرتی تھیں۔
میری پدائش سے بہت پہلے۔
ہمارے بڑے بزرگ ٹرانسپورٹ ( کھوتے خچر) کا کام کرتے تھے۔
جیسا کہ عام طور پر برصغیر کے کمہار کیا کرتے ہیں
لیکن میرے ننیال( نانکے) کا کام یہ تھا کہ اپنے مال کی خرید فروخت اور ٹرانسپوٹ کا کام تھا ۔
اس مال کو جموں تک لے کر جاتے تھے جو کہ ان دنوں مشترکہ ہندوستان کی وجہ سے اپنے ہی ملک کا حصہ تھا۔
مہمانوں کے ساتھ ہونے والی باتوں میں اس دور کی کہانیاں بھی سنی ہیں کہ ، مال کو لے کر جانے اور واپسی میں کن مسائیل کا سامنا ہوا کرتا تھا
حاجی خوشی محمد جو کہ میرےپڑنانا بنتے ہیں بڑے معتبر بندے تھے اور علاقے کے مشہور پہلوان بھی تھے۔
ان کا بھائی تھا پہلوان اللہ لوک جو کہ میرے پردادا محمد رمضان عرف بابا بلّھا کے چھوٹے بھائی تھے
یہ دونوں پاکستان بننے سے پہلے چھٹ اٹھانے کے مقابلوں کے مشہور زور آور ہوا کرتے تھے
ان دونوں پہلوانوں کی اس دور کی کہانیاں بھی انہی محفلوں میں سنی ہیں جو ٹی وی کے زمانے سے پہلے کے زمانوں میں جما کرتی تھیں۔
پسرور کے علاقے کو دڑپ کا علاقہ کہا کرتے تھے ، جہاں کی مشہور فصل مسور (مسر دال والے) ہوا کرتی تھی ، اور اس علاقے کے لوگوں کے مسر کھا کھا کر رات کو نظر ناں انے کی بیماری “ارتانا” کا بھی ذکر سنا ہے۔
اس علاقے دڑپ میں پانی کی کمی کا بھی سنا ہے کہ
بابا امام دین ( ماسٹر منور صاحب کے والد) سناتے ہیں کہ
کنویں میں پانی اتنا دور تھا کہ جھانکنیں پر ایک تارے کی طرح نظر اتا تھا
اس ایک فقرے میں کنویں کی گہرائی اور پانی کی سطح کا اندازہ ہوجاتا ہے
بات وہ یہ سنا رہے تھے کہ
جب سیالکوٹ کی عمارتیں نظر انا بند ہوتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ جانوروں کو پانی پلانے کا بھی وقت ایا ہے
تو
سب بھائیوں میں فیصلہ ہوتا ہے کہ
فلان فلاں کھوہ جوتا ہوا ملے گالیکن اس بات کا بھی سب کو علم ہے کہ پانی کی قلت والے علاقے دڑپ میں زمین دار جانوروں کو پانی نہیں پینے دے گا۔
تو کیا کیا جائے
بھائی محمد ( راقم کے نانا)کی زمہ داری لگی کہ پانی انتظام کے لئے جاؤ
اس دور کے کمہار کچھ میراتھن کے کھلاڑیوں سے بھی زیادہ اسٹمنا رکھتے تھے کہ خچروں کے ساتھ بھاگ بھاگ کر دو چار دس میل کی دوڑ عام سی بات تھی
بھائی محمد نے دوڑ لگائی اور کوئی چار پانچ میل اگے کے چلتے ہوئے کنویں کی کھال میں کپڑے اتار کر گھٹنے جوڑ کر کھال میں بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم پر ایسے پانی ڈالنے لگا کہ جیسے نہا رہا ہے
کنویں میں جتے بیلوں کے پیچھے گادی پر بیٹھے زمین دار نے سمجھا کہ کوئی مسافر ہے جو نہا رہا ہے
اور نظر انداز کردیا
جس دوران کہ پانی کھال میں بھائی محمد کے اگے اکٹھا ہوتا رہا
کچھ لمحے گزارے کہ زمین دار کو دور سے جانوروں کے کھروں سے اڑتی دھول نظر ائی تو اس کو سمجھ لگ گئی کہ
پانی روکے بیٹھا بندہ کمہار ہے جو جانوروں کے لئے پانی روکے بیٹھا ہے
جس پر زمین دار گادی سے اتر کر بھائی محمد کی طرف بھاگا اور بھائی کے پاس پہنچ کر اس “پرانی” ( وہ ڈنڈہ جو بیلوں کو اکسانے کے کام اتا ہے) سے پیٹنے لگا
اس بات کا احساس رکھتے ہوتے گامے نے پہلے ہی دوڑ لگا رکھی تھی بھائی محمد کی مدد کے لئے
گامے نے زمین دار پیچھے سے “جپھا” مار کر جکڑ لیا اور منتیں کرنے لگا
چوہدری صاحب میرے بھائی کو نہ مارو جی ۔
اس وقت تک ڈنگر پانی پر پہنچ چکے تھے
اور پانی پینے لگے تھے
اب زمین دار نے بھی جدو جہد چھوڑ دی اور روہانسا سا ہو کر کہنے لگا
اوئے میرے بھی جانور صبح سے ہلکان ہو رہے ہیں کنویں کے اگے جتے ہوئے ظالموں!!!۔
اب مجھے تلونڈی کی ان محفلوں کی باتیں تو یاد نہیں رہیں کہ ان محفلوں کی باتیں کرنے والے لوگ ہمارے بچپن میں ہی اس جہان سے گزرتے چلے گئے
اور کچھ ان میں لکھنے والے بھی نہیں تھے کہ میری طرح کچھ لکھ کر چھوڑ جاتے کی انے والی نسلوں کو تلونڈی کی باتوں کا علم ہو جاتا
کچھ میرے ساتھ یہ ہوا کہ میں بے وطنی کے عذاب میں مبتلا ہو گیا
اب بھی جی چاہتا ہے کہ
ابھی جو بزرگ زندہ ہیں ان کی باتوں کو سن کر لکھ دیا جائے
ان کی فوٹواں بنا کر رکھ لی جائیں
جس کے لئے کوشش بھی کر رہا ہوں
اور اسی لئے یہ سائٹ تلونڈی ڈاٹ نیٹ بنائی بھی ہے
جیسے جیسے یاد اتا رہتا ہے میں لکھتا رہتا ہوں
اور اگے بھی کوشش کرتا رہوں گا
1 comment for “بیتے برسوں کی باتیں، تلونڈی موسٰے خان کی یادیں”