تلونڈی کے کمہار ، خاور کھوکھر کی یادیں ۔

Khawar

Khawar

اس سال تمباکو کی فصل اچھی اٹھی تھی
یاکہ ان دنوں تلونڈی کے کمہار تمباکو کے کاروبار میں تھے !
میرے دادا مرحوم جناب محمد اسماعیل کی داڑہی ابھی کالی تھی ،  میری عمر کیا تھی مجھے یاد نہیں لیکن
اس سال  تلونڈی کے مشرقی کھیتوں میں تمباکو کی فصل  مجھے یاد ہے ، پھر اس فصل کو کاٹ کر  کماہورں کی حویلیوں میں اس کو “ دابو” دیا گیا تھا
تمباکو کو دابو دینے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ
تمباکو کے پودوں کو کاٹ کر ایک جگہ جمع کر لیا جاتا تھا
اس کے بعد زمین میں ایک قبر نما گڑھا کھود کر اس میں تمباکو کے پودوں کی ایک تہہ بچھائی جاتی تھے، اس تہہ کے اوپر ایک  تہہ ہلکی سے پرالی کی بچھائی جاتی تھی ۔ تہہ در تہہ  تمباکو سے گڑھا بھر لیا جاتا تھا ۔
اس کے اوپر پرالی کی ایک موٹی تہہ بنا کر اس پر پانی کے چڑکاؤ سے کچھ دن انتظار کیا جاتا تھا  ، اس طرح تمباکو کے پودے گل کر بہت نرم ہو جاتے تھے ، تمباکو کے پتوں اور چھال کو ڈنڈلوں سے علیحدہ کر کے  اس کے رسے بنا لئے جاتے تھے ، جن  کو تمباکو کا “کھبڑ “ کہتے تھے  ۔
حویلی میں برادری کے دسیوں لوگ جمع تھے ، گپ شپ کے ساتھ ساتھ کام جاری تھا ، ،مجھے اپنے بچپن کی یادیں ،اپنے بزرگوں کی عادات اور معاملات کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے
تلونڈی کے کمہار اخلاقی طور پر گریٹ ترین لوگ تھے ۔
کمہاروں کے اصلی اور پرانے گھر  گاؤں کے اندر ہوتے تھے ،۔
مسجد نور کے مغربی طرف  اگر اپ سنیاروں کے گھر کی طرف رخ کریں تو بائیں ہاتھ پر کمہاروں کے گھر تھے ، جو سکھ شاہوں کے گھر  تک  ساتھ جڑے ہوئے تھے ۔
سکھ شاہوں کے گھر میں اب رفیق مہاجر کا خاندان اباد ہے  ۔
سکھ شاھ جی  جو تقسیم کے وقت  تلونڈی چھوڑ کر  انڈیا چلے گئے تھے انکا ایک بیٹا سروپ سنگھ ستر کی دہائی میں  جب تلونڈی آیا تھا تو  وہ اپنے چوبارے کے  دروں میں اینٹوں سے کے بند کرئے جانے پر بہت ازردہ ہوا تھا ، مجھے اس کے آنسو اج بھی یاد ہیں ۔۔
یہیں ساتھ میں دیگر ہندو لوگوں کے گھر تھے  کمہاروں کے گھروں  میں سے میرے پڑنانے کے گھر کا پچھوکڑ  بابا سید  کھوکھر کے گھر سے ملتا تھا ۔ بابا سید کھوکھر  جو کہ ماسٹر عظیم صاحب کے والد تھے  ، ان کا ذکر کر رہا ہوں ۔
کمہار بھی کھوکھر ذات کے تھے ان کے پچھوکڑ میں تیلی  بھی کھوکھر تھے اور ان کے گھروں کے سامنے کے ماچھیوں کے گھر بھی کھوکھر تھے  ،۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ چیمے جاٹوں کے گاؤں میں  ہنر مند لوگ  کھوکھر زیادہ ہوتے ہوں گے ۔
حاجی خوشی محمد  ( پہلوان ) ابھی زندہ تھے ، چھٹ اٹھانے کے ان کے ساتھی اور بھائی  پہلوان اللہ لوک کی رحلت کی یاد مجھے نہیں ہے ۔
میرا  پردادا  محمد رمضان عرف بابا بلھا کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ  جانور چرنے کے لئے لے کر گیا ہوا تھا  ۔
لوہاروں کی دوکان کے پاس سے جہاں سڑک گنڈم کو جاتی ہے یہیں کہیں ، ان دنوں کھیت ہوتے تھے  ۔
ملک والے کھوھ  تک جانے والے اس پہہ ( راہ گزر) پر بیریوں کی بہتات ہوتی تھی ۔
یہی پہہ ملک والا کے قریب سے گزر کر  بڑے سائفن تک جاتا تھا ۔
عام دنوں کی راہ گزر یہ پہہ بارش میں ایک نالے کا کردار ادا کرتے ہوئے  سیلاب کے پانی کو تلونڈی کے مشرقی علاقے سے ہی گھیر کر  سائفن میں ڈال دیتا تھا  جہان سے یہ پانی راوی تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں پھیل کر ختم ہو جاتا تھا ۔
بڑھتی ہوئی ابادی نے میرے وطن کے نظام کو  کم علمی کی وجہ سے جس طرح تباھ کیا ہے  ۔
اس تباہی میں پانی کی ایسی راھ گزریں بھی تھیں جو کہ عام بندے کو  انسانوں کی راہ گزر لگتی تھیں ۔
عقل کے اندھے سرکاری ملازمیں نے ان کو سڑکیں بنا کر  لوگں پر احسان جتلائے
اور پانی کا راہ بند کر کے ان کے بچوں کو سیلابوں میں ڈوب مرنے کے عذاب میں مبتلا کر دیا ۔
ہان تو میں بات کر رہا تھا کہ بابا بلھا  یہیں کہیں جانور لے کر چرا رہا تھا کہ کوئی درویش یہاں سے گزرا  ، اس درویش نے بابے بلھے سے کہا کہ دودہ دو گے ؟
بابے نے کہا کہ دودہ والی بکریوں کا دودہ خود ہی دھو لو  جتنا ضرورت ہے ۔
اس درویش نے اپنی گڈری سے “ ٹنڈ” نکلای اور اس میں دودہ دھو کر  اپنے چولے سے ایک خشل روٹی نکال کر  دودہ میں بگھو بگھو کر کھانے لگا ۔
اس درویش کا کھانے کا سٹائل بہت ہی کراہت امیز تھا ، دودہ سے اس کی داڑہی لتھڑ چکی تھی ، روٹی کے ریزے اس کے دامن پر گرئے ہوئے تھے  ۔
بابے بلھے کو دیکھتا دیکھ کر درویش کہتا ہے
کھاؤ گے ؟؟
بابے نے کراہت سے انکار کردیا ۔
جس پر درویش جھلا کر بولا
تم نے دودہ دیا ہے تمہاری نسل میں دودہ کی کمی نہیں ہو گی لیکن  رزق کم ہو گا ۔
میں سمجھتا ہوں کہ کہ بس ایک رویت ہی ہے
اور کوشش میں ہوں کہ اگر پشین گوئی بھی ہو تو اس کو جھٹلا کر دیکھاؤں ۔
اسی طرح اسی جگہ کہیں   بابے بلھے نے ایک بارات گزرتی دیکھی  ،۔
ڈھول تاشے بجاتے ، ناچتے گاتے لوگ دیکھ کر بابا بلھا ان کے نزدیک گیا تو ان لوگوں نے بابے بلھے کی کھانے کے لئے جلیبیاں دیں  ، جو بابے بلھے نے  چادر کے پلو میں ڈال لیں گھر جا کر سب کے ساتھ مل کر کھاؤں گا۔
گھر آ کر جب بابے نے وہ چلیبیاں نکالیں تو وہ چلیبیاں نہیں بول بزار تھا ۔
جس کو دیکھ کر بابے کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ  ابکائیاں کرتے کرتے دو دن میں ہی جان سے گزر گیا ۔
تلونڈی کے کمہار گاؤں کے مشرق اور مغرب دونوں طرف  آباد تھے ،۔
مغربی محلے سے بابا امام دین اور ان کا بھائی  غلام محمد ، مشرقی محلے سے میرے نانا  جان محمد اور دادا محمد اسماعیل تہڑوائی ،کاروبار میں تھے ، دادے کا کاروبار کم اور ماپ تول کر دینے کی ذمہ داری زیادہ تھی ،۔
جانوروں پر مال لادھ کر قافلے بنا کر  چلتے تھے ، ان سب بزرگوں میں اتنا زیادہ اتفاق تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔
اس وقت میں یہ عام بات سمجھتا تھا ، لیکن اج احساس ہوتا ہے کہ
ایک دوسرے کے ساتھ دھیمے لہجے میں  بات چیت ، ہلکا پھلکا مذاق   ،اور ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے تھے کہ
دوسرے کے درد پر ان کے آنسو نکل آتے تھے ۔
اپنے جانوروں کو جو گالیاں  تلونڈی  کے کمہار دیا کرتے تھے ، وہ مجھے اس وقت بڑی احمقانہ لگتی تھی ، لیکن اج اس کی معونیت کا احساس ہوتا ہے ۔
جیون جوگیا!،۔
اوئے تیری خیر ہوئے !، سائیں جیونی!۔
گدھے کے روٹین سے نکل جانے پر آواز ہوتی تھی۔
ہو ہو  اوئے ٹنگے جیوگیا ۔
جانوروں کے نام بھی بڑے پیارے ہوتے تھے ۔
ساوا ، رتّا ، بگھا ، مشکا۔
تلونڈی کے کمہاروں میں تعلیم کی کمی رہی ہے ۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ  ان کو علم سے نفرت تھی ،۔ گھروں میں کتابیں ہوتی تھیں ، جن کو پڑھنے والے بلا کر سنی جاتی  تھیں ۔
ایک نسل تھی جو بڑی ہی بیدار مغز اور علم دوست تھی ، ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لعین
وہ گنج ہائے گراں مایہ تو نے کیا کئے ۔

2 comments for “تلونڈی کے کمہار ، خاور کھوکھر کی یادیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.