آج فیس بک پر ایک فوٹو گردش کرتی دیکھی تو
تلونڈی کی یادوں کا ایک سلسہ شروع ہو گیا
کہ مجھے اسیّ کی دہائی کے کے تلونڈی کے منڈے یاد انے لگے
بلو ماچھی کیا نام تھا اس کا مجھے یاد نہیں آرہا
کہ بلو مجھ سے کچھ سال چھوٹا تھا
لیکن خادم حسین ( خالد) کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ بھی میل جول تھا
کچھ بات یہ بھی تھی کہ ابھی تلونڈی کا ماحول اتنا ایڈوانس نہیں ہوا تھا
سبھی لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے
بلو کو ایک شوق تھا کہ کتوں کو پھینٹی لگانے کا ۔
بات شروع ہو گئی اور بلو اور اس کے ساتھ مختار چیمہ ( مرحوم ) اور چند دیگر دوست یہی کھڑے تھے جہاں اب تلونڈی ڈاٹ نیٹ کے انچارج امتیاز حسن کی دوکان ہے۔
قصائیوں کے پھٹے بھی یہیں ہوا کرتے تھے ستار جولاہ کی دوکان کے تھڑے پر
کہ بلو کہنے لگا
وہ کتاّ جو سرخ رنگ کا ہے یہ ہمارے گاؤں میں نیا ایا ہے
اس نے مقامہ کتوں سے لڑائی کرکے اپنے طاقت منوا کر ابھی ابھی شامل ہوا لگتا ہے
میں اس کو بتاتا ہوں کہ
تلونڈی کا ماحول کیا ہے
یہ کہ کر بلّو چپکے سے گیااور اس کتے کو پچھلی ٹانگوں سے پکڑ لیا
کتے نے پلٹ کر دانت مارنے کی کوشش کی لیکن بلّو نے دو تین جھٹکے دئے اور اس کو گھومانا شروع کردیا
تین چار چکر دے کر جب بلو نے کتے کو چھوڑا تو بد حواس کتے کا بھاگنا بھی دیکھنے والا تھا
ایک دفعہ میں خادم حسین اور بلّو سنیاورں کے محلے سے اڈے کی طرف آ رہے تھے شام کا وقت تھا
مسجد نور کے عین جنوب میں جو گلی ہے جو کہ اگے بند ہے
ہاں وہی گلی جہاں چوہدریوں کے گھر کا دروازہ ہوا کرتھا
اس گلی میں ایک کتا کھڑا تھا
بلّو چلتے چلتے اس طرف ہو گیا
کتے کے پاس سے گزرتے ہی بلّو کے اس کتے کی گردن کو بائیں ہاتھ سے پکر کر دائیں سے مکے مارنے شروع کئے کہ کتے کی ٹٹیاؤں ٹٹیاؤں کو یاد کر کے اج بھی ہاسے نکل جاتے ہیں ۔
فیس گاہ سے لے کر رفاقت ناگرے کے گھر تک ایک پل بنا تھا
انیس سو چوہتر میں ۔
مجھے یاد ہے کہ اس پل کی تعمیر میں میں نے بھی ایک روپیہ دیا تھا
اج یہ پل ایک نشانی سی ہی رہ گیا ہے
لیکن ایک وقت تھا کہ یہاں چھپڑ ہوا کرتا تھا
مھے وہ سانحہ یاد ہے
کہ بائی سولی (غلام رسول انصاری) کی بیٹی اللہ رکھی یہاں ڈوب کر مر گئی تھی
پانی کی ٹنکی کے ساتھ ہی جو جگہ ہے یہاں کسی نے ان دنوں چار دیواری بنائی تھی غالباً رفیق مہاجر نے
اور یہاں ایک ٹیڈی نسل کا کتا تھا
جس کو عادت تھی کہ جب بھی کوئی گلی سے گزرے یہ کتا چاردیواری کے اندر پڑی پرالی پر چڑھ کر دیوار پر آجاتا تھا اور راہگیروں پر بھونکنے لگتا تھا
ایک دن بلّو نے کتے سے زیادہ تیزی دیکھائی کہ کتے کے دیوار تک پہنچنے سے پہلے بلّو اس پوائینٹ کے نیچے پہنچ چکا تھا جہان کتا بھونکنے کے لئے پہنچا کرتا تھا
پھر جی یہ ہوا کہ بلّو نے اس ٹیڈی کتے کو حلق سے پکڑ لیا اور
ایک پھینٹی لگا دی
سنا ہے کہ پھر اس ٹیڈی کتے نے راہگیروں پر بھونکنا چھوڑ دیا تھا
بلّو ماچھی کے بھائی ہم سے ایک نسل پہلے کی تلونڈی کے چہرے مہرے ہوا کرتے تھے
ماسٹر ہدیت اللہ اور ریاست اس دور کے کبڈی کے کھلاڑی ہوا کرتے تھے
بابے شیر سنیارے کا بیٹا لیاقو سنیارا اور حنیف نائی بھی اس دور کے کبڈی کے کھلاڑی ہوا کرتے تھے
آج کی تلونڈی کے وہ لوگ جو اپنی عمر کے پچاسویں سال کے اردگرد ہیں
ان کو یا ہو گا کہ
این پسٹن والے انجن کی اواز ایا کرتی تھی
چھنب سے
تلونڈی کے چھنب میں حاجی خوشی محمد نائی نے انجن والا ٹیوب ویل لگایا یوا تھا
حنیف نائی انہی حاجی صاحب کا بیٹا ہے
گوجرانوالہ میں سول لائیں والے نیشنل بنک میں سائیکل سٹینڈ کا ٹھیکہ ان کے پاس تھا جو
بعد میں مستقل ان کا ہی ہو گیا
کہ
اسّی کی دہائی کے اخری سالوں کا واقعہ ہے کہ کچھ ڈاکو اس نیشنل بنک کو لوٹنے آ گئے
ڈاکو بنک لوٹ کی کامیاب واردات کرکے باہر نکلے تو حنیف نائی نے ان کو روک لیا
اور ان سے بندوق چھین کر ان کو دو چار لگا دیں
بس جی اس دن سے نیشنل بنک سول لائین کا سائیکل سٹینڈ کا ٹھیکہ ان کی اولاد کے پاس ہے
بلّو ماچھی کا ایک بھائی جیدو ماچھی ہے جو
کہ گانوں کی پیروڈی کا ماسٹر ہوا کرتا تھا
1 comment for “بلّو ماچھی تحریر خاور کھوکھر”