بابا جی سروپ سنگھ ٹلّی ،۔
پچھلی پوسٹ میں بابا جی سروپ سنگھ جی کی ایک ویڈیو لگائی تھی ،۔
اج بابا جی سروپ سنگھ جی کے متعلق میری یاد میں محفوط باتیں صفحہ قرطاس پر بکھیر رہا ہوں کہ انے والی نسلوں کو پڑھنے کو مل جائیں ،۔
بابا جی سروپ سنگھ سن سنتالیس کے بٹوارے میں تلونڈی موسے خان کو چھوڑ کر ہوشیار پور منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے تھے م،۔
بٹوارے کے وقت ان کی عمر کوئی بیس یا تئیس سال رہی ہوگی م،۔
بٹوارے کے بعد پہلی بار بابا جی اپنے گاؤں آئے تھے انیس سو اٹھہتر میں ،۔
بابا جی نے اپنے ویڈیو انٹرویو میں واپڈا کے جس ملازم ، نیاز کا ذکر کیا ہے ،۔
یہ صاحب واپڈا میں لائین مین تھے ،۔ ان کا آبائی گاؤں پسرور روڈ پر وڈالہ سندھواں کے پاس ایک گاؤں چکری تھا ،۔
ملازمت کی وجہ سے یہ نیاز صاحب جن کو گاؤں کے سب لوگ نیازی بجلی والا کہتے تھے ،۔تلونڈی میں رہائیش رکھتے تھے ،۔
نیاز صاحب ہمارے گاؤں کے نہیں تھے ، یہ باہر سے تلونڈی میں آئے تھے ،۔ اور یہاں کرائے کے مکان میں میں رہتے تھے ،۔
ہائی سکول سے گاؤں کی طرف منہ کریں تو چوک سے بلکل سامنے دو دروازے ہیں ، ان میں سے دائیں طرف والا دروازہ نیازی بجلی والے کا تھا ،۔
اس گھر کے مالک سیٹھ احمد دین کمہار تھے ،۔
نیازی بجلی والے کے کچھ رشتہ دار تقسیم ہند یعنی بٹوارے میں انڈیا میں رہ گئے تھے جو کہ کہیں ہشیار پور میں تھے ،۔
ان دنوں جب کہ انڈیا کا ویزہ بڑا مشکل کام تھا تو نیازی نے کوشش کر کے وزٹ کا ویزہ لیا اور اپنے رشتہ داروں سے ملنے جایا کرتا تھا ،۔
وہاں کہیں ہوشیار پور میں نیازی بجلی والے کی ملاقات سروپ سنگھ سے ہوئی تھی ،۔
نیازی نے سروپ سنگھ کو اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی لیکن سروپ سنگھ کے سامنے بھی ویزے کا پہاڑ کھڑا تھا ،۔
ان دنوں سکھ لوگوں کو ننکانہ صاحب کی یاترا کا ویزہ مل جاتا تھا ،۔
لیکن اس میں پابندی تھی کہ وہ مخصوص مقامات تک ہی محدود رہیں گے ،۔
اور کوئی بھی سکھ اس بات کا رسک نہیں لیتا تھا کہ اپنے روٹ سے ہٹ کر کہیں جائے ،۔
ان دنوں ، ذیلدار فیملی کے چوہدری محمد نواز کا بیٹا ، چوہدری مقبول الہٰی پولیس میں اعلی افسر تھا ،۔
چوہدرہ مقبول الہٰی کی کوشش سے سروپ سنگھ اور اس کے پوتے کو روٹ سے ہٹ کر تلونڈی تک لانے کا سہرا چوہدری مقبول الہٰی کے سر جاتا ہے م،۔
تلونڈی میں بابا جی سروپ سنگھ جی کا قیام بہرحال نیازی بجلی والے کے گھر میں ہی رہا تھا ،۔
سن اٹھتہر کی وہ باتیں مجھے اب بھی یاد ہیں کہ سارے گاؤں میں تو نہیں لیکن گاؤں کے مشرقی محلے میں سروپ سنگھ جی کے انے کا بڑا شوق سے انتظار کیا گیا تھا ،۔
ایک جلوس سا سروپ سنگھ جی کے استقبال کے لئے بن گیا تھا ،۔
سروپ سنگھ اور اس کا پوتا ، چوہدریوں کی گاڑی پر ہی گاؤں آئے تھے ، چوہدری مقبول الہٰی صاحب ان کو لے کر آئے تھے م۔۔
بابا جی سروپ سنگھ کو شائد فالج کا نقص تھا ، ان کی ایک آنکھ پھڑکتی رہتی تھی ،۔
ان دنوں گاؤں کے ضیعف ترین فرد حاجی خوشی محمد پہلوان تھے جو کہ راقم کے پڑنانا تھے ،۔
سروپ سنگھ نے ان کو اور راقم کے نانا کو پہچان لیا تھا ،۔
لیکن راقم کے دادا محمد اسمائیل کو دیکھ پہچان نہیں سکے تھے ، یاد کروانے پر ان کو کئی باتیں یاد آگئی تھیں ،۔
گاؤں کے سارے بڑے بزرگ سروپ سنگھ کو شاہواں دا منڈا، کہہ کر بلا رہے تھے ،۔
سروپ سنگھ جی کا خاندان تقسیم سے پہلے تلونڈی موسے خان کے شاھ جی تھے ،۔
سروپ سنگھ جی کے بڑے بزرگوں کو شاھ جی کہہ کر پکارا جاتا تھا ،۔
پنجاب میں پرانے زمانے میں رواج تھا کہ سود پر پیسے دینے والے اور سید لوگوں کو جن کی زندگی کا انحصار دوسروں کی امداد پر ہوتا تھا یا کہ دوسروں کی کمائی پر نظر ہوتی تھی ان کو شاھ جی کہتے تھے ،۔
سروپ سنگھ جی کا آبائی گھر وہ تھا یہاں اب میرے کلاس فیلو اشرف کا خاندان رہتا تھا،۔
دو منزلہ مکان ، جس کے چوبارے میں محرابی در بنے ہوئے تھے ،۔ سرخ رنگ کی اینٹوں کا بنا یہ مکان ،بڑا خوبصورت لگتا تھا ،۔
مجھے یاد ہے کہ سروپ سنگھ کے انے کے کچھ ہی ماھ پہلے مہاجروں نے چوبارے کے دروں میں انیٹیں چن کر دیوار بنا دی تھی ۔
اشرف کے کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے مجھے باتیں یاد ہیں ،۔
جب سروپ سنگھ جی اپنے اس مکان کو دیکھنے کے لئے گئے تھے تو مجھے یاد ہے
ان کے آنسو نکل گئے تھے
اور روتے ہوئے انہون نے اشرف کے ابا جی کو مخاطب کر کے کہا تھا،۔
یار جی ہم نے بڑے شوق سے یہ یہ چوبارہ بنوایا تھا م،
اس کے ہوا دار در بنوائے تھے ، تم لوگوں نے اس میں انیٹیں چن کر سارا حسن ہی ختم کر دیا ہے ،۔