بھولی بسری یادیں

Khawar khokhar

تلونڈی موسے خان میں جن کرداروں کا اپنے بزگوں سے سنا ان میں ایک گلاب عیسائی تھا  ،۔

جس کی طاقت اور تھتھے پن کی باتیں سنا کرتے تھے ،۔

اور ایک کردار تھا شریف نائی ،۔

تلونڈی میں کئی شریف نائی ہوئے ہیں  لیکن جن صاحب کا اج ذکر ہے وہ میری سنبھال سے پہلے گزر چکے تھے ،۔

اونچی مسجد  کی بغل میں کہیں ان کا گھر تھا ،۔

اس زمانے کے رواج کے مطابق سیپ کرتے تھے اور گھر میں پالی ہوئی بھینس کے لئے چارہ وغیرہ جاٹوں کے کھیتوں سے مانگ لایا کرتے تھے ،۔

ڈیروں پر ابادیوں سے کٹے ہوئے جاٹ لوگ  جن کی سنسار یاترا  اس دن ہوتی تھی  جس دن کپڑے دھونے والے صابن سے جسم دھو کر  دھی کی شیپو کر کے بالوں پر سرسوں کا تیل چپڑے گاؤں میں آتے تھے تو کریانے کی دوکان سے  “نکدی “  ایک سیر تلوا کر کھاتے تھے اس کے بعد حلوائی کی دوکان سے جلیبیاں مسٹ ہوتی تھیں ،۔

ہر روز طرح طرح کے لوگوں سے ملنے والے نائی  جو ابادیوں میں مستیاں کرتے ہوئے لگتے تھے ، جب جاٹ ان کا منہ دیکھتے تھے تو ان کو بڑا ترش ٹریٹ کیا کرتے تھے ،۔

لیکن شریف نائی  کے متعلق بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ پکڑ کر زمین دار کو زمین پر لٹا کر بڑا مارا کرتا تھا ، مارتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا کہ لوکو بچاؤ جٹ مجھے مار رہا ہے ،۔

بندے کو مارنے کی اس کی ٹکینیک یہ تھی کہ بندے کو اپنے اوپر لٹا کر مارا کرتا تھا ،۔

چئنے والا کھوھ پر جب کچی سڑک سے گزرتے لوگوں نے چیخ پکار کی آواز سنی تو اندر جا کر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ پواڑے کے پاس جٹ چیمے نے شریف نائی کو لٹایا ہوا ہے اور جٹ چیخے مار رہا ہے ،۔

لوگوں نے جب جٹ کو شریف نائی کے اوپر سے اٹھایا تو جٹ انسو بہاتے ہوئے بڑے فریادی لہجے میں کہتا ہے ۔

ایس نائی نے مینوں بڑا ماریا جے !!۔

لیکن لوگ کہتے ہیں کہ 

ہم نے تو دیکھا ہے تم نائی کے اوپر چڑھے ہوئے تھے ؟

شریف نائی اپنی جگہ روئے جا رہا ہے ،۔

اس وقت تک کئی اور لوگ بھی وہاں پہنچ گئے 

اس دن گاؤں والوں پر کھلا کہ  وہاں کئی لوگوں نے دہائی دی کہ شریف نائی ان کو بھی پھینٹی لگا چکا ہے ،۔

ہر دفعہ شرف نائی لوگوں کے پہنچنے پر جٹ کو اپنے اوپر لٹا لیتا تھا ،۔

اور سارے جٹ بھی اپنی بے عزتی کی وجہ سے کسی کو نہیں بتاتے تھے اصل میں شریف نائی سے مار کھا چکے ہیں ،۔

دیکھنے والوں نے تو اس کو شریف نائی پر سواری کرتے ہوئے ہی دکھا ہوتا تھا ناں !،۔

یہ وہی شریف نائی تھا ، جب پنجاب کی تقسیم ہوئی اور پاکستان بن گیا تو 

اس زمانے میں ایمن آباد کا وساکھی کا میلا بڑا شاندار میلا ہوا کرتا تھا  ،۔

شائد تقسیم سے پہلے پنجاب کا سب سے بڑا وساکھی کا میلا ایمن آباد کا میلا ہوا کرتا تھا ،۔

گاؤں میں ذیلدار صاحب کے بیٹے نے بھی  میلا دیکھنے جانا تھا ،۔

چھوٹا چوہدری  ذیلدار صاحب کو ڈیرے میں جا کر کچھ رقم کا تقاضا کرتا ہے ،۔

ابا جی  ، ایمن آباد میلا دیکھنے جانا ہے ، پانچ روپے چاہئے !،۔

ذیلدار صاحب نے ڈیرے میں دریوں پر بیٹھے لوگوں سے پوچھا ،!۔

گاؤں میں کسی نے وساکھی منائی ہے ؟

کسی نے بتایا کمہاروں نے جلیبیاں بنائی ہیں !،۔

ذیلدار صاحب پوچھتے ہیں کسی اور نے ؟

تو ان کو بتایا جاتا ہے کہ ہاں شریف نائی نے  “ کڑا “ یعنی حلوہ بنایا ہے ،۔

ذیدار صاحب کے حکم پر ایک بندہ شریف نائی کو بلا کر لاتا ہے ،۔

ڈیرے پر ذیلدار صاحب شریف نائی کو غصے سے کہتےہیں 

اوئے نائیا ! سکھ تو ہم لوگوں نے نکال باہر کئے 

اب جب کہ ہم نے اپنا مسلمان ملک بنا لیا ہے تو ؟ تمہیں سکھوں کا تہوار وساکھی منانے کی جرات کیسے ہوئی اوئے ،۔

شریف نائی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا 

شریف نائی چوہدری صاحب سے معافی مانگنے لگا ۔

لیکن چوہدری صاحب نے  اس کو کہا کہ 

انصاف کا تقاضا ہے کہ تمہیں ، پانچ لتر لگائے جائیں ،

یا پھر 

تم  فی لتّر ایک روپیہ کے حساب سے پانچ روپے جرمانہ ادا کرو  !،۔

اس زمانے میں پانچ روپے خاصی بڑی رقم ہوا کرتے تھے ،۔

شریف نائی کو گھر سے پانچ روپے لا کر جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا ، شریف نائی نے یہ پانچ روپے کا انتظام کیسے کیا تھا اس بات پر تاریخ خاموش ہے لیکن 

ڈیرے پر بیٹھے ہوئے گاؤں کے لوگوں نے اپنی انکھوں سے دیکھا کہ چوہدری صاحب نے پانچ چاندی کے سکے اپنے بیٹے چھوٹے چوہدری کو دئے تھے کہ جا پتر جا کر ایمن آباد کا وساکھی کا میلا دیکھ آ !،۔

جہان تک بات  ہے دوسرے کردار گلاب عیسائی کی ؟

تو اس کے متعلق

لطیفے سے مشہور تھے  ، جو اس کی طاقت اور اس کی خوداری کا بتایا کرتے تھے ،۔

گلاب عیسائی اس زمانے کے رواج کے مطابق کسی نہ کسی جاٹ کا آتھڑی رہا کرتا تھا ،۔

کہتے ہیں ایک دفعہ جوار کے پٹھے ٹوکے پر کتر رہے تھے 

لیکن گلاب عیسائی کی ٹوکا چلانے کی سپیڈ میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی حالانکہ جوار پر ٹوکا چلاتے ہوئے بڑے بڑے جوان پانپ جایا کرتے تھے ،۔

جٹ منڈے کو شرارت سوجھی ، اس نے پاس پڑی بانس کی ڈانگ ٹوکا مشین میں گھسیڑ دی ، ٹھک ٹھک کی آوازیں آنے لگیں بانس کی ڈانگ کتری جانے لگی کہ جاٹ منڈے کو  کچھ خیال آیا اور کہتا ہے گلاب  ٹھہر جا  ، ڈانگ لگ گئی ہے اسے نکال  لیں چھریاں خراب ہو جائیں گی ،۔

گلاگ عیسائی جو تھتھا تھا ، اس نے کہا  اب ڈانگ اگے ہی نکلے گی پیچھے نہیں ،۔

چھنب میں کسی کھوھ پر ان کا بیل بڑا اتھرا تھا ، ہر کسی کو ٹکر مار گراتا تھا ، اس بیل کو نتھ سے پکڑ کر ہی اگے پیچھے کیا جاتا تھا ، گلاب عیسائی ان کے پاس نیا نیا آتھڑی رہا تھا کہ جٹ کو شرات سوجھی اور گلاب کو کہتا ہے ، بیل کو پانی تو پلاؤ ، گلاب بیل کو کلے سے کھول کر اس کی رسی پکڑ کر اس کے اگے چلنے لگا ، بیل نے پیچھے سے اس کو ٹکر ماری ، گلاب نیچے گر گیا ، لیکن رسی نہیں چھوڑی ،۔

نیچے پڑے پڑے رسی سے بیل کو کھنیچ کر اپنے پاس کیا اور  بیل کی نتھ پکڑ کر کھڑا ہوتا ہے 

اور اگلے ہی لمحے بیل کو پٹخنی دے کر بیل کو نیچے گرا اس کی گردن پر سوار ہو کر  بیل کی ناک پر مکہ جڑ کر کہتا ہے تجھے نہیں علم کہ میرا نام گلاب عیسائی ہے ،۔

کہتے ہیں 

کہ اس دن کے بعد بیل نے کبھی گلاب کو ٹکر نہیں ماری ،۔

پیل کو پٹخنی دینے سے مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا کہ ایک زمانے میں کوئی اکہتر بہتر کی بات ہے ، سنیار والے کھوھ (گاؤں گنڈم ) پر میرا  چاچا یونس ٹھیکے پر زمین لے کر  واہی بیجی کیا کرتا تھا ،۔

یہاں ایک دن ہم کماد چھیل رہے تھے ، اور چاچے مالک کا سرخ گھوڑا پاس ہی چر رہا تھا ،۔

چاچے کالو (مشتاق) کا ایک گدھا جو بڑا شرارتی تھا وہ گھوڑے کو تنگ کرنے لگا ،۔

کبھی اس کی وکھی میں منہ ڈال رہا ہے ، کبھی دولتی جھاڑ دیتا ہے ،۔

گھوڑا اس سے تنگ ہمارے گرد ایک دائیرے میں بھاگنے لگا ،۔

میں اور میرے دادا جی  محمد اسماعیل دھڑوائی کماد چھیل رہے تھے ،۔

گھوڑا دائیرے میں بھاگ رہا ہے اور ہمارے طرف دیکھ دیکھ کر آوازیں بھی نکال رہا ہے کہ مجے بچاؤ،۔

مجھے وہ منظر ابھی تک یاد ہے مجھے گھوڑا بہت پیارا لگ رہا تھا 

دادا جی نے ہو ہو کہ آواز نکال کر گدھے کو منع کیا لیکن گدھے نے سرسری سی نظر ایک سے دادے کو دیکھا اور گھوڑے کا تعاقب جاری رکھا 

کوئی چوتھے کہ پانچویں چکر میں  دادا جی اٹھ کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے ہی گدھا دادا جی کے پاس سے گزرتا ہے دادا جی اس کو گردن سے پکڑ کر پٹخ دیتے ہیں ، اور اس کی ناک پر مکے لگاتے ہیں ،۔

میں بڑا ایکسائیٹڈ ہو جاتا ہوں کہ اتنے بڑے کھوتے ہو کیسے پٹخنی دی ہے ،۔

گدھا مار کھا کر آرام سے کھڑا ہو جاتا ہے ۔

لیکن مجھے ایکسائیٹڈ دیکھ کر دادجی مجھے کہتے آؤ میں میں بتاؤں کہ جانور کو کیسے پٹخنی دیتے ہیں ،۔

مجھے یہ تکنیک میرے داد نے بتائی تھی کہ کیسے جانور کی گردن میں بازو ڈال کر اگلی ٹانگوں کو اڑیکا دے کر جانور کو گرایا جاتا ہے م،۔

خاور کھوکھر کی تحریر ، خاور کی اپنے گاؤں کے متعلق یادیں تلونڈی ڈاٹ نیٹ پر شائع ہوتی رہتی ہیں ،۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.